Posts

Showing posts from March, 2020

(Depression) دباؤ

تحریر : آمجد خان محسود (Depression) دباؤ دباؤ بعض لوگوں کے نذدیک یہ ایک کیفیت کا نام ہے اور بہت سے لوگوں اور ماہرِ نفسیات کے مطابق یہ ایک بیماری ہے۔ دراصل اس میں ہوتا یہ ہے کہ ڈپریشن کے متاثرہ شخص کے زہن پر پریشانیوں کا دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معمولات کو صحیح طریقے پر انجام دینے قابل نہیں رہتا ۔گویا زہنی دباؤ سے اس کا زہن اس قدر متاثر ہوجاتا ہے کہ وہ کسی ایک کام پر یکسوئ کے قابل نہیں رہتا۔ آج کل کی جدید شہری زندگی کی جہاں بہت سی سہولتیں ہیں اور برکتیں ہیں وہاں ہر وقت ایک ایسے عذاب سے بھی واسطہ پڑتا رہتا ہے جسے مہذّب اصلاح میں " ڈپریشن یا ذہنی دباؤ" کہا جاتا ہے۔ڈپریشن کسی بھی سطح کا اور کسی بھی ممکنہ وجہ سے ہوسکتا ہے اور بڑے شہروں کا کوئی بھی شہری یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ وہ ڈپریشن کے آثرات سے بالکل آزاد ہے البتہ ذرا سی توجّہ اور کوشش سے اس بیماری پر قابو ضرور پایا جاسکتا ہے۔ ذہن کی یہ کیفیت کیوں ہوتی ہے اس کا پسِ منظر کیا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں دیکھیں! یہ دنیا جس میں ہم رہ رہے ہیں ہمیں خوشیاں اور غم دونوں فراہم کرتی ہے۔ہماری اس زندگی میں خوشیاں تو ہیں لیکن سات...

جذبات کی سائنس

جذبات کی سائنس۔۔۔۔! انسان روزانہ کی بنیاد پر مختلف لوگوں سے ملتا ہے ، باتیں کرتا ہے۔ يعنی کہ تلخیاں اور دوستیاں معمول ہوتی ہیں۔ ماحول ، حالات ، کردار کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ان حالات میں مختلف افراد کا رویہ یا آراء جاننے کے بعد انسان جذبات کی صورت میں ردعمل دکھاتا ہے۔ ان جذبات کو چہرے پر تاثرات کی صورت میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر دکھ ، خوشی ، حیرت ، خوف ، کراہت اور غصے کو بنیادی جذبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس درجہ بندی کا سہرا رابرٹ پلچک نامی نفسیات دان کے سر جاتا ہے۔ جس نے 70 کی دہائی میں یہ کام سرانجام دیا۔ کچھ جذبات آپس میں مل کر ایک نیا جذبہ پئدا کرتے ہیں۔ جیسے خوشی اور اعتماد مل کر محبت بناتے ہیں۔ انسانی جذبات کا تعلق انسانی دماغ میں موجود (limbic system) سے ہوتا ہے۔ لمبک سسٹم یاداشت ، بھوک ، دل کی دھڑکن یعنی آٹونامک نروس سسٹم کو کنٹرول کرتا ہے۔ یعنی کہ انسان کے تمام شعوری و غیر شعوری کاموں کو یہ سسٹم کنٹرول کرتا ہے۔ لمبک سسٹم کوئی واحد بناوٹ نہیں بلکہ کئی بناوٹوں کا امتزاج ہے ، جن میں (hypothalamus) ، (amygdala) بھی شامل ہیں۔ یہ بناوٹیں حالات کی نزاکت کو دیکھ کر ہا...

کٹوپس کے بارے میں چند عجیب وغریب حقائق

اکٹوپس کے بارے میں چند عجیب وغریب حقائق اس زمین پر لاکھوں عجیب و غریب مخلوقات آباد ہیں جن میں خشکی پر رہنے والے، ہوا میں اڑنے والے اور سمندروں میں رہنے والے شامل ہیں۔ سمندر کی گہرائیوں میں موجود اکٹوپس نامی مخلوق کو بھی اگر ہم ان عجیب و غریب مخلوقات میں شامل کریں تو ہرگز غلط نہ ہوگا کیونکہ اکٹوپس کچھ ایسے خصوصیات رکھتا ہے جو اسے دوسرے مخلوقات سے بہت الگ کرتا ہے۔ آج ہم اکٹوپس کے بارے میں کچھ ایسے حقائق جانے گے جو اس سیارہ زمین پر صرف اکٹوپس کو ہی حاصل ہے۔ ہماری اس دنیا میں اکٹوپس کی دو سو 200 اقسام پائے جاتے ہیں جو اکثر سمندرو کی گہرائی میں دیکھے جاتے ہیں۔ اکٹوپس کو سمندروں کے مانسٹرز بھی کہتے ہے۔ لفظ اکٹوپس ایک یونانی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ہے آٹھ پاوں یعنی آٹھ پاوں رکھنے والا۔ آپ میں سے بہت سے لوگ سوچ رہیں ہونگے کہ اس مخلوق کے 8 پاوں ہونگے جوکہ سائنس کے مطابق مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ جن کو ہم 8 پاوں سمجھ رہیں ہے وہ دراصل میں اکٹوپس کے بازوں ہیں۔  اکٹوپس کے ہر بازوں میں سکرز لگے ہوتے ہیں جن سے یہ کسی بھی قسم کی لیکویڈ کو چوسنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔  پوری دنیا میں اگر دیک...

ایڈز

ایڈز بیماریوں پر قابو پانے کے ادارے کے ہفت روزہ رسالے میں 4 جولائی 1981 کو ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ لاس اینجلس میں اکتوبر 1980 سے مئی 1981 کے درمیان پانچ مریض داخل ہوئے تھے۔ ان سب کو ایک نایاب بیماری نیموسسٹس نمونیا تھی۔ یہ بیماری ایک عام پائی جانے والی فنگس سے ہوتی ہے۔ اس کے ذرات اس قدر عام ہیں کہ یہ بچپن میں ہی جسم میں داخل ہوتے رہتے یہں۔ امیون سسٹم ان کو جلد ہی مار دیتا ہے اور آئندہ کے لئے محفوظ کر دیتا ہے۔ لیکن بہت کمزور امیون سسٹم ہو جانے کے بعد یہ فنگس تباہی مچا سکتی ہے اور پھیپھڑے ناکارہ کر دیتی ہے۔ مریض کو زندہ رکھنے کے لئے آکسیجن دینی پڑتی ہے۔ یہ پانچوں مریض اس حالت میں تھے کہ ان کو یہ بیماری لاحق نہیں ہونے چاہیں تھی۔ نوجوان مرد جو کچھ عرصہ پہلے تک ہر لحاظ سے صحت مند تھے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رسالے کے مدیر نے لکھا کہ “یہ ممکنہ طور پر خلیوں کے امیون سسٹم میں ہونے والی خرابی ہے”۔  انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ جدید تاریخ میں آنی والی بدترین وبا کا بتا رہے ہیں۔ یہ پانچ افراد خلیاتی امیون سسٹم کی خامی کا شکار تھے اور اس کی وجہ ایچ آئی وی وائرس تھا۔ بعد میں محققین نے معلوم کیا کہ...

کینسر بیماری کیسے کہتے ہیں

کینسرز ایسی بیماریوں کو کہتے ہیں جن میں بدن کے کسی حصے کے خلیے بنا روک ٹوک کے تقسیم ہو کر دوسرے حصوں کو پھیل سکیں ،  ایک اوسط جسامت کے انسان میں پچہتر کھرب (پچہتر سو ارب ) خلیے ہوتے ہیں ، ان میں سے ٣٠٠ ارب خلیے ہر روز تقسیم ہوتے ہیں ، یہ خلوی تقسیم یا مائیٹوسس بڑے کنٹرولڈ طریقے سے ہوتی ہے.  پر بعض اوقات کچھ خلیے کنٹرول سے نکل کر بنا روک ٹوک تقسیم ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، ان کو ہم کینسر کے خلیے کہتے ہیں اور یہ ہم میں سے ہر شخص کے بدن میں روزانہ ہزاروں کے حساب سے بنتے ہیں ،  عموما ہمارے خون کا مدافعاتی نظام ان کو پہچان کر فورا ختم کر دیتا ہے اور ہمیں کینسر نہیں ہو پاتا ،  پر اگر اس نظام اور کینسر کے خلیوں میں توازن خراب ہو جاے یعنی خلیے کثرت سے بنیں یا مدافعاتی نظام کمزور ہو تو ہمیں کینسر ہو جاتا ہے .  بہت سے عوامل کینسر کا باعث بنتے ہیں ، یہ عوامل یا تو جینیاتی تبدیلیاں لا کر کینسر کے خلیوں کی تعداد بڑھاتے ہیں یا خون کے مدافعاتی نظام کو کمزور کرتے ہیں ،  ان میں سگریٹ نوشی قابل ذکر ہے ، اسکے علاوہ موٹاپا ، خوراک میں زیادہ توانائی اور گوشت کا استعمال ، ورزش کی ...

*بل گیٹس کی ہائی اسکول کے طلبہ کو نصیحت آموز تقریر:*

*بل گیٹس کی ہائی اسکول کے طلبہ کو نصیحت آموز تقریر:* *پہلا اصول:*  زندگی منصفانہ بالکل نہیں ہوتی، اس بات کی عادت ڈال لو۔ *دوسرا اصول:* دنیا میں کسی کو تمہاری خود اعتمادی سے کوئی مثبت لینا دینا نہیں ہوتا۔ کسی سے توقع نہ رکھو کہ وہ تمہیں اعتماد دے گا۔ یہ تمہارا اپنا کام ہے۔ اس سے پہلے کہ تم میں خود اعتمادی ذرا سی بھی پیدا ہوئی ہو، دنیا تم سے توقع کرے گی کہ تم ہر کام پرفیکشن کے ساتھ کرو. *تیسرا اصول:* ہائی اسکول سے نکلتے ہی تم ہر سال چالیس ہزار ڈالر نہیں کمانے لگو گے۔ اس حقیقت کو یاد رکھو کہ اس میں بہت وقت لگے گا۔  *چوتھا اصول:* اگر تمہیں شکایت ہے کہ تمہارے ہائی اسکول کے ٹیچر بہت سخت ہیں تو انتظار کرو کہ کب جاب ملے، تمہیں اندازہ ہو گا کہ باس کیا بلا ہوتی ہے؟ ٹیچر کا تو پھر بھی ٹنیور ختم ہو جاتا ہے، باس تو زندگی بھر باس ہی رہتا ہے۔ شکایت کرنا بند کرو۔ *پانچواں اصول:*  اگر تمہیں بیچ میں گزارہ کرنے کے لئے برگر بھی تلنے پڑ جائیں تو اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ اس طرح برگر کے سٹال لگانے کو اچھا موقع قرار دیتے تھے، پیسے کمانے کا۔ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ دنیا...

دنيا كے مشہور ترين ملحدين (Atheists) نے مرتے وقت كيا كہا:

دنيا كے مشہور ترين ملحدين   (Atheists)  نے مرتے  وقت كيا كہا: بورجيا: ميں اپنى زندگى ميں موت كے سوا ہر چيز كى تيارى كرتا تھا، اور اب  جب ميں مرنے والا ہوں تو موت كے ليے تيار نہيں۔  تھامس ہوبس:  يہ ايك سياسى فلسفى تھا، مرتے وقت كہتا ہے: ’’ ميں اس وقت اندھيروں ميں گرا پڑا ہوں، كوئى مجھ سے پورى دنيا لے  لے اور صرف ايك دن زندگى دے دے۔  تھامس پین: يہ اٹھارہویں صدی كا ملحد مصنف ہے جس نے  مرتے وقت کہا: ميں اس وقت ايسے عذاب ميں ہوں كہ مجھے اكيلا نہ چھوڑنا اور بلا شبہ جو ميں نے كيا ہے ميں اسى عذاب كا مستحق ہوں، اگر آج ميرے پاس پورى كائنات ہوتى اور اس دنيا كے مثل ايك اور دنيا بھى ہوتى تو ميں اس تكليف كے بدلے دے ديتا۔ آج مجھے اللہ نظر آرہا ہے جبكہ ميں پورى زندگى شيطان كا چيلا بنا رہا۔  4- سر تھامس اسکاٹ: ’’يہ ایک انگریزی مشیر تھا جو 1594 ء میں فوت ہوا ، اور مرتے ہوئے كہہ رہا ہے: "لمحوں پہلے تک میں کسی معبود یا آگ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا تھا ، لیکن اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اصلی ہیں  اور اللہ كا وجود بھى ہے، اب  جبكہ میں عذاب کے ...

*بل گیٹس کی ہائی اسکول کے طلبہ کو نصیحت آموز تقریر:*

*بل گیٹس کی ہائی اسکول کے طلبہ کو نصیحت آموز تقریر:* *پہلا اصول:*  زندگی منصفانہ بالکل نہیں ہوتی، اس بات کی عادت ڈال لو۔ *دوسرا اصول:* دنیا میں کسی کو تمہاری خود اعتمادی سے کوئی مثبت لینا دینا نہیں ہوتا۔ کسی سے توقع نہ رکھو کہ وہ تمہیں اعتماد دے گا۔ یہ تمہارا اپنا کام ہے۔ اس سے پہلے کہ تم میں خود اعتمادی ذرا سی بھی پیدا ہوئی ہو، دنیا تم سے توقع کرے گی کہ تم ہر کام پرفیکشن کے ساتھ کرو. *تیسرا اصول:* ہائی اسکول سے نکلتے ہی تم ہر سال چالیس ہزار ڈالر نہیں کمانے لگو گے۔ اس حقیقت کو یاد رکھو کہ اس میں بہت وقت لگے گا۔  *چوتھا اصول:* اگر تمہیں شکایت ہے کہ تمہارے ہائی اسکول کے ٹیچر بہت سخت ہیں تو انتظار کرو کہ کب جاب ملے، تمہیں اندازہ ہو گا کہ باس کیا بلا ہوتی ہے؟ ٹیچر کا تو پھر بھی ٹنیور ختم ہو جاتا ہے، باس تو زندگی بھر باس ہی رہتا ہے۔ شکایت کرنا بند کرو۔ *پانچواں اصول:*  اگر تمہیں بیچ میں گزارہ کرنے کے لئے برگر بھی تلنے پڑ جائیں تو اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ اس طرح برگر کے سٹال لگانے کو اچھا موقع قرار دیتے تھے، پیسے کمانے کا۔ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ دنیا...

کبوتر کے بارے میں انتہائی دلچسپ باتیں

کبوتر کے بارے میں انتہائی دلچسپ باتیں  کبوتر شیشے میں اپنے آپ کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کبوتروں کودور دراز کے علاقوں سے اپنے گھر جانے کا راستہ یاد ہو تا ہے۔ کبوتر انسانوں کی نشبت با آسانی ہموار سطحوں کو تھری ڈی میں دیکھ سکتے ہیں۔ کبوتر مختلف کبوتروں میں فرق سمجھنے اور پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں کبوتر ایک لمبے عرصے کے لئے مختلف تصاویر ذہن نشین کر سکتے ہیں۔ کبوتر پیچیدہ ریسپانسز اور ترتیبیں سیکھ سکتے ہیں۔ کبوتروں کی سُننے کی صلاحیت انسانوں سے بھی تیز ہے۔ وہ انسانوں کی نسبت کہیں درجے کم فریکئیوئنسی کی آواز سُن سکتے ہیں۔ کبوتر واحد پربدہ ہے جسے پانی نگلنے ک لئے اپنا سر نہیں اٹھانا پڑتا۔ پانچ ہزار سال قبل یونانی قوم نے کبوتروں کا استعمال پیغام رسانی کے لیے شروع کیا۔ کبوتروں کی اڑان کی برداشت ایک دن میں سو کلومیٹر کی رفتار سے پندرہ سو سے سترہ سو کلو میٹر ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پائلٹ اپنے ساتھ کبوتر لے کر جاتے تھے کہ کہیں اگر انھوں نے اپنا جہاز پھنسا لیا(یعنی تباہ ہونے سے بچ گیا یا تباہ ہونے کے بعد وہ بچ گئے) تو کبوتر کو مدد کے لیے بطور پیغام رساں استعمال کر سکیں اور اس طرح ب...

ایلومیناٹیز

#ایلومیناٹیز: (تعارف، مقاصد) ایلیومیناٹیز دراصل صہیونی خفیہ سٹیٹ کے مختلف بڑے بڑے پراجیکٹس میں سے ایک پراجیکٹ ھے۔ جس کا کام زیادہ تر کام پروپیگنڈا نیٹ ورک میڈیا ،سوشل میڈیا کے ذریعے ھوتا ھے۔ ایلومیناٹیز کا مخرج لاطینی زبان کا لفظ ایلومیناٹس ہے جس کا مطلب ہے دانشمند اور روشن دماغ شخص۔ یہ تنظیم جرمنی کے علاقے بویریا میں یکم مئی 1776 کو قائم کی گئی تھی۔ نوٹ کریں کہ 1776 وہی سال ہے جب دنیا بھر میں گمراہی پھیلانے والے ملک امریکہ نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔۔۔ جرمنی میں 1784 سے لے کر 1790 تک ایلومیناٹی اور دوسری خفیہ تنظیموں کو بھرپور طریقے سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس وقت تک ایلومیناٹیز نے یورپ اور امریکہ کے اہم ترین افراد کو اپنا ممبر بنا لیا تھا جو کہ حکومت، سیاست، تجارت، یونیورسٹیوں، حتٰی کہ چرچ تک میں اہم عھدوں پر فائز تھے۔ محب وطن عوام کے غصے کو دیکھتے ہوئے جرمن حکومت نے بھرپور کریک ڈاؤن کیا تو یہ تنظیم زیر زمین چلی گئی اور خفیہ رہتے ہوئے دنیا کو کنٹرول کرنے کی سازشیں کرنے لگی۔۔۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ ایلومیناٹی نے ہی 1776 میں امریکہ کو برطانیہ سے آزاد کرایا تھا۔ اسی وجہ ...

علم کی انتہا

٭ علم کی انتہا ۔۔۔۔ ٭علم کی انتہا حیرت نہیں۔ لیکن اپنی ذات کا علم  ہمیں ضرور ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔   ٭علم کی انتہا حق الیقین کی وہ کیفیت ہے جو دنیا میں آنکھ بند ہونے کے آخری لمحے آنکھ پر وارد ہوتی ہےکہ اس لمحے اندر کی آنکھ کھل جاتی ہے۔اس کیفیت کا بیان پاک کتاب اور احادیث رسول ﷺ سے تو ثابت ہے لیکن فانی انسان۔۔۔۔ جو اس کیفیت کا امین ہے۔ وہ اظہار کی قدرت کھو دیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ ٭راز ِزندگی۔۔۔۔ میلے میں جا کر میلہ چھوڑنا اورمیلہ چھوڑنے کا حوصلہ رکھنا ہی راز ِزندگی ہے۔ ۔۔۔۔ رازِ زندگی ہے تو فقط یہ کہ جو راز کو پا گیا وہ زندگی سے نکل گیا اور جس نے زندگی کی خواہش کی وہ محرمِ راز نہ بن سکا۔ ٭عقل کا صدقہ یہ ہے کہ "کسی کو جاہل سمجھا ہی نہ جائے"۔ اپنی زندگی میں آنے والے ہر کردار اور ہر ایک کی بات میں ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہے۔ ۔۔۔۔۔ ٭ دل سے نکلی بات روح پر دستک دیتی ہے۔ ۔۔۔۔۔ ٭ اپنی جہالت کا اعتراف علم کی راہ کی پہلی سیڑھی ہے۔ ۔۔۔۔ ٭سبق ملنا اور بات ہے سمجھ میں آنا اور بات۔ ۔۔۔۔  ٭ جتنی جستجو کسی شے کی کی جائے اتنی ہی ناکامی اس کےحصول اوراتنی ہی نا مکمل تسکین اس کے ق...

انسانی دل

۔۔۔۔۔۔انسانی دل ۔۔۔۔۔۔ دل ایک ایسا عضو ہے جو انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے  ( یعنی رحم مادر میں ) بھی کام کرتا ہے اور انسان کے مرنے تک اپنا کام جاری رکھتا ہے- اس کا کام جسم کے تمام حصوں ک خون پہچانا ہے جس کے لیے اسے بہت زیادہ مقدار میں توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو دل کے مسلز ATP کی صورت میں حاصل کرتے ہیں- ATP ایک مالیکیول ہے جو Mitochondria سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے دل کے مسلز کے خلیوں میں Mitochondria کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے تاکہ مسلز کو زیادہ مقدار میں ATP ملتی رہے۔  دل ہمارے جسم کی Cavity thoracic کے بائیں جانب واقع ہے جس کو آگے سے sternum اور پیچھے سے ریڑھ کی ہڈی محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کے آس پاس ایک ڈبل میمبرین ہوتی ہے جسے ہم Pericardium کہتے ہیں- ہم جانتے ہیں کہ دل کا کام خون کو پمپ کرنا ہے جس کے لئے دل کے مسلز میں مسلسل کنٹریکشن ( یعنی سکڑنے کا عمل ) اور ریلیکسیشن ( یعنی پھیلنے کا عمل ) ہوتی رہتی ہے - چنانچہ اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ رگڑ کی وجہ سے دل اپنی elasticity کو کھو نہ دے- دل کو رگڑ سے محفوظ رکھتنے کے لیے pericardial کی ڈبل میمبرین کے بیچ میں ایک مائ...

انسانی دماغ کے متعلق معلومات

انسانی دماغ ٹھوس نہیں ہوتا بلکہ لچکدار ہوتا ہے اور اسکا %73 حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسکا وزن صرف 1300گرام سے 1400 گرام تک ہوتا ہے۔ اور حیران کن طور پر یہ ایک کھرب خلیات پر مشتمل ہوتا ہے یہ تعداد قریب قریب اتنی ہی ہے جتنے ہماری کہکشاں ملکی وے میں ستارے ہیں۔ ان خلیات کی بھی دس ہزار اقسام ہیں اسکا سائز مکمل جسم کا صرف %2 ہوتا ہے لیکن یہ کل توانائی کا بیس فیصد استعمال کرتا ہے اسکے مختلف حصے اپنا کام بخوبی سر انجام دیتے ہیں____ دماغ کا ہر خلیہ اپنے آپ میں کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے پھر یہ سارے آپس میں مربوط ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں ان میں Networking ,ھوتی ھے۔ جس کی وجہ سے یہ مل کر فیصلہ کرتے ہیں یاداشت محفوظ کرنے والا حصہ اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ 2.5 پیٹا بائیٹ میموری محفوظ کر سکتا ھے۔ سادہ الفاظ میں تقریباً پچیس لاکھ گیگا بائیٹس کا ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ھے____ دماغ کے خلیات کو خون سپلائی کرنے والی نالیاں اتنی باریک ہوتی ہیں کہ بمشکل نظر آتی ہیں لیکن صرف دماغ میں انکی طوالت اتنی ہوتی ہے کہ بالفرض محال انکو آپس میں جوڑ دیا جائے تو 120000 کلومیٹر لمبائی بنے گی دماغی خلیات ایک دوسرے کو 432 کل...