علم کی انتہا
٭ علم کی انتہا ۔۔۔۔
٭علم کی انتہا حیرت نہیں۔ لیکن اپنی ذات کا علم ہمیں ضرور ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
٭علم کی انتہا حق الیقین کی وہ کیفیت ہے جو دنیا میں آنکھ بند ہونے کے آخری لمحے آنکھ پر وارد ہوتی ہےکہ اس لمحے اندر کی آنکھ کھل جاتی ہے۔اس کیفیت کا بیان پاک کتاب اور احادیث رسول ﷺ سے تو ثابت ہے لیکن فانی انسان۔۔۔۔ جو اس کیفیت کا امین ہے۔ وہ اظہار کی قدرت کھو دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔
٭راز ِزندگی۔۔۔۔
میلے میں جا کر میلہ چھوڑنا اورمیلہ چھوڑنے کا حوصلہ رکھنا ہی راز ِزندگی ہے۔
۔۔۔۔
رازِ زندگی ہے تو فقط یہ کہ جو راز کو پا گیا وہ زندگی سے نکل گیا اور جس نے زندگی کی خواہش کی وہ محرمِ راز نہ بن سکا۔
٭عقل کا صدقہ یہ ہے کہ "کسی کو جاہل سمجھا ہی نہ جائے"۔ اپنی زندگی میں آنے والے ہر کردار اور ہر ایک کی بات میں ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہے۔
۔۔۔۔۔
٭ دل سے نکلی بات روح پر دستک دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔
٭ اپنی جہالت کا اعتراف علم کی راہ کی پہلی سیڑھی ہے۔
۔۔۔۔
٭سبق ملنا اور بات ہے سمجھ میں آنا اور بات۔
۔۔۔۔
٭ جتنی جستجو کسی شے کی کی جائے اتنی ہی ناکامی اس کےحصول اوراتنی ہی نا مکمل تسکین اس کے قرب سے ملتی ہے۔ زندگی میں بس جو ملتا ہے چپ چاپ لے لینا چاہیے۔
۔۔۔۔
٭خوبصورتی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک بامعنی نہ ہو۔اور معنی ہر ایک پر اس کے ظرف کے مطابق اترتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭سچے رشتے،لازوال تعلق
مکمل تنہائی،لامحدود وقت اور بھرپور توجہ چاہتے ہیں
یہ رشتے چا ہے انسانوں سے ہوں یا
۔"اللہ" سے۔
۔۔۔۔
٭مٹی کا بنا فانی انسان جب تک مٹی کی بےجان چیزوں سےقربت محسوس نہیں کرے گاوہ کیونکر اپنی گہرائی محسوس کر سکے گا۔
۔۔۔۔۔
٭ انسان تو ہے ہی خسارے کا سوداگر اس کی تصدیق کلامِ پاک میں مل چکی بس اسے سمجھتے ہوئے اس پر غور کرتے ہوئے آگے بڑھنا زندگی برتنے کا اصل قرینہ ہے بجائے اس کے اپنی کم علمی یا نااہلی پر افسوس کرتے زندگی گزار دی جائے۔
۔۔۔۔
٭ان خودساختہ عقل مندوں اور ہوس پرستوں سے ہم بےوقوف ہی بھلے جو محبت کرتے ہیں تو اسے چھوڑنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭دراصل ہماری کمزوری اور ہماری طاقت دونوں کچھ اس طرح باہم مل جلی ہوتی ہیں کہ جو ہماری طاقت دکھتی ہے وہ ہماری کسی کمزوری کا عکس ہوتی ہے اور جو ہماری کمزوری ہوتی ہے وہ کسی بھی لمحے ہماری سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے۔ اہم بات اور اصل دانائی نہ صرف اپنی طاقت اور کمزوری کا ادراک ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس خاص نظر سے دیکھنے کی طاقت کا نام بھی ہے ۔یہی وہ معمولی سا فرق ہے جو ظاہر اور باطن کی آنکھ کا فرق نمایاں کرتا ہے۔ جیسے کہ ہماری پاک کتاب میں کئی جگہ کہا گیا " تم دیکھتے کیوں نہیں"۔
۔۔۔۔۔۔
٭زندگی خواب کی آغوش میں منہ چھپا کر نہیں بلکہ حقیقت کے سامنے سجدہ ریز ہو کر گزرتی ہے چاہے ان سجدوں میں ہمارے خوابوں کی کرچیاں روح زخمی کردیں،لیکن پھر بھی ہم خواب دیکھتے ہیں کبھی کھلی آنکھ سے تو کبھی بنا کسی خلش یا کوشش کے بند آنکھ میں روشن خواب اترتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔
٭ "ہجرت”محض ایک عمل ہی نہیں،ایک بہت بڑا انسانی رویہ ہےچاہے اپنی رضا سے ہی کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ہجرت ابتدائی طور پر انسان کا اعتماد زیرو کر دیتی ہےجب اسے نئی جگہ نئے ماحول میں قدم قدم پر سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭ ظاہر ہمارا اصل روپ ہرگز نہیں۔ ہمارا ظاہر موم کی طرح حالات کے سانچے میں اپنا آپ ظاہر کرتا ہے تو پانی کی طرح کسی بھی پیاسے کے ظرف کی 'اوک' میں ڈھل کراس کی تسکین کرتا ہے۔
۔۔۔۔
٭نیند عین الیقین ہے توموت حق الیقین ہے اور ان کی پہچان علم الیقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
٭دیکھنے والی آنکھ وہی منظر دیکھتی ہے جو اس کی آنکھ کے دائرے میں گردش کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
٭سفر صرف جسمانی نہیں ہوتا بلکہ اکثر جسمانی سفر تو جسم سے فرار کی لاشعوری خواہش کا عکس ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔
٭انسان ہمیں کچھ بھی نہیں دے سکتے لیکن جو بھی ملتا ہے انسان کے وسیلے سے ملتا ہے۔اکثر دینے والا خود بھی نہیں جانتا کہ کیا دے رہا ہے اور کیوں دے رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
٭محبوب کے ساتھ کا ایک پل ہی کافی ہے چہ جائیکہ ہم اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشوں کا کاسہ دراز کرتے چلے جائیں۔
۔۔۔
٭علم ڈگری میں نہیں اور نا ہی ڈگری سے علم ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔
٭اپنی نظر میں اپنی پہچان اہم ہے دوسرے کبھی بھی ہمیں مکمل طور پر جان نہیں سکتے۔
۔۔۔۔۔۔
٭اندر کا موسم اچھا ہو تو باہر کے موسم بھی اچھے لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭اصل خوبصورتی دیکھنے والی آنکھ میں ہے منظر میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔
٭ محبت پر بات وہی کر سکتا ہے جو محبت کرنے والا ہو چاہے وہ اپنے آپ سے ہی محبت کیوں نہ کرتا ہو۔
۔۔۔۔
٭محبت انسان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہرگز نہیں بلکہ روٹی روزی کی فکر میں صبح وشام کرتے انسان کے لیے یہ ذہنی عیاشی یا مسائل سے فرار کے سوا کچھ بھی نہیں۔
۔۔۔
٭ انسانوں کو پرکھنے میں ہماری"غلطی" بہت بڑا سبق بھی دے جاتی ہے ۔۔۔ہمیں بہت سی غلط فہمیوں سے نجات دلا کر اس کی قربت سے آشنا کرتی ہے جو صرف ہمارا ہوتا ہے اورصرف وہی جانتا ہے کہ ہمارے حق میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔۔۔ ہم جس طرح زندگی میں ملنے والے اچھے لوگوں اور خوشبو احساس کے شکرگزار رہتے ہیں کہ وہ ہماری پہچان رکھتے ہیں اسی طرح ملنے والے برے لوگوں اور ٹھوکروں کا بھی ممنون ہونا چاہیے جو ہمیں خود ہماری اپنی پہچان سے آشنا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭ ہم انسانوں کی بےاعتباری کی سب سے بڑی وجہ "غلط فہمی"کے تیزی سے بڑھتے جالوں سے جنم لیتی ہے اور رفتہ رفتہ اپنے حصآر میں بری طرح جکڑ کر ہمیں اپنی ذات کے اندر قید کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔
٭ انسانی سوچ دل اور دماغ کے باہم ربط سے تشکیل پاتی ہے۔ دل کی اوّلیت سے انکار نہیں کہ یہ انسان کی جبلتوں،جذبات اور فطرت کی نمائندگی کرتا ہے۔لیکن اہم کام دماغ کا ہے جو اس پر مہرِِتصدیق ثبت کرتا ہے۔اور کسی بھی مہر کے بغیر کوئی وزنی سے وزنی دلیل یا قیمتی سے قیمتی احساس بےمعنی ہے۔
۔۔۔۔
٭جب انسان کو کوئی قطب نما دکھائی نہ دے تو آپ اپنا رہبر بننا پڑتا ہے بجائے اس کے بےسمتی کے کمزورجواز سے اپنے آپ کو بری الذمہ کر کے راہ فرار اختیار کی جائے ۔
۔۔۔۔۔
٭ ہر تعلق کی اپنی جگہ ہے زندگی کی پزل گیم میں ہم ایک ٹکڑا بھی ادھر سے ادھر کرنے کے مجاز نہیں۔
۔۔۔۔
٭عورت صرف خیال کی اڑان میں ہی تنہا پرواز کر سکتی ہے۔ زمینی حقائق میں وہ اپنے رشتوں کے حصار سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکال سکتی ۔
۔۔۔
٭ دنیا میں کسی کے جیتنے یا ہارنے کا تعین دیکھنے والی آنکھ سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی محسوس کرنے والا ذہن ایسا کوئی فیصلہ صادر کرنے کا اہل ہے۔۔سب سے بڑھ کر ہم خود اپنی زندگی کی ہار یا جیت کے بارے میں آخری سانس تک نہیں جان سکتے۔
۔
Comments
Post a Comment