عمل کے بغیر علم بے کار ہے
فرض کریں آپ صحرا میں بھٹک چکے ہوں۔ پیاس کے مارے آپ کا برا حال ہو۔ ایسے میں آپ کو ایک شخص دکھائی دے۔ آپ اس سے پانی مانگیں۔ اس کے پاس ٹھنڈے پانی کی چھاگل ہو لیکن بجائے آپ کو پانی پلانے کے، وہ آپ کو پہلے پانی کی کیمسٹری سمجھانا شروع کردے کہ یہ ہائیڈروجن اور آکسیجن دو گیسوں کے ملنے سے بنتا ہے، پھر اس کی فزکس بتانا شروع کرے کہ اس کے قطرے گول کیوں ہیں اور کنویں سے یہ نکالا کیسے جاتا ہے، پھر بائیالوجی شروع کردے کہ فوٹو سینتھیسز میں اس کا کیا کردار ہے، پھر اس کی ریاضی، منطق، فلسفہ پڑھانا شروع کردے۔۔۔۔۔ تو کیا خیال ہے، آپ کی پیاس بجھ جائے گی؟؟؟ آپ کی جان بچ جائے گی؟؟؟بالکل نہیں، بلکہ پانی پیے بغیر، پانی کی صرف باتیں، آپ کی پیاس اور بڑھا دیں گی، اور اگر یہ باتیں کچھ دیر اور جاری رہیں، تو ہوسکتا ہے کہ تشنگی کے مارے، آپ کی جان ہی نکل جائے۔ آپ کو اپنی پیاس بجھانے کے لیے پانی کو پینا پڑے گا، پانی کا علم آپ کی پیاس نہیں بجھا سکتا اور نہ آپ کی جان بچا سکتا ہے۔ اس مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ علم کیا ہے اور عمل کیا ہے؟
چلیں ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو مولانا روم رح نے اپنی مثنوی میں بیان کی۔ فرماتے ہیں ایک عالم دریا کے پار اترنے کے لیے کشتی میں سوار ہوا۔ رستے میں اس نے ملاح سے باتیں شروع کردیں کہ بھائی کچھ لکھنا پڑھنا بھی جانتے ہو یا صرف کشتی چلانا ہی سیکھا ہے؟ ملاح نے کہا جناب ہم تو جدی پشتی ملاح ہیں، یہ تو ہمارا خاندانی پیشہ ہے، ہمارا لکھنے پڑھنے سے کیا واسطہ اور کیا کام؟ عالم بولا، اچھا! تو تمہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ افسوس! تم نے اپنی آدھی زندگی گنوا دی۔ کشتی جب بیچ دریا کے پہنچی تو بھنور میں پھنس گئی۔ ملاح نے لاکھ جتن کیے لیکن بے سود۔ کشتی جب ڈوبنے کے قریب ہوئی تو ملاح نے کہا حضرت اب پانی میں کودے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ آپ بتائیں آپ کو کچھ تیرنا ویرنا بھی آتا ہے؟ عالم نے گھبراتے ہوئے جواب دیا کہ نہیں مجھے تیرنا بالکل نہیں آتا، میں تو صرف لکھنا پڑھنا ہی جانتا ہوں۔۔۔ ملاح نے یہ سنا تو چپو چھوڑتے ہوئے عالم سے مخاطب ہوا کہ 'حضرت میں نے تو اپنی آدھی زندگی گنوائی تھی، آپ نے تو ساری کی ساری ہی گنوا دی۔' یہ کہا اور پانی میں چھلانگ لگائی اور تیرتے ہوئے کنارے پر پہنچ گیا۔
ان دونوں مثالوں سے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ زندگی محض علم کا نام نہیں بلکہ علم و عمل کا نام ہے۔ عمل کے بغیر علم بے کار ہے، بلکہ علم کا مقصد ہی عمل ہے۔ دوسرے الفاظ میں علم راستہ ہے، منزل نہیں، منزل پر آپ تب پہنچیں گے جب اس راستے پر چلیں گے یعنی سفر کریں گے۔ وگرنہ 'کیا یہ سڑک لاہور کو جاتی ہے؟' 'نہیں، یہ سڑک کہیں نہیں جاتی، یہیں پڑی رہتی ہے۔'
(اع)
Comments
Post a Comment