اولاد کے دوست بنئیے۔۔۔۔
اولاد کے دوست بنئیے۔۔۔۔
میرے ایک قریبی دوست جن کا بیٹا 20 سال کا ہے۔ایک روز اس بات پر اللہ کا شکر ادا کررہے تھے کہ میرا بیٹا میرے ساتھ ہر بات شئیر کرتا ہے۔ میں نے کہا یہ آپ کی خوبی اور دانشمندی ہے کہ آپ کا بیٹا آپ کے ساتھ ہر بات شئیر کرتا ہے۔ ورنہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ سے ہر بات شئیر کرے۔ کہنے لگے "مجھے ایسا لگتا ہے جن گھروں میں اولاد اور والدین میں دوستی یا انسیت نہ ہو وہاں اولاد ایسے بڑے قدم اٹھاتی اور من مانی کرتی ہے کہ والدین بے بس، پریشان اور مجبور ہوتے ہیں، کہ وہ اولاد کو واپس اس پوائنٹ پر نہیں لا سکتے جہاں سے یہ جدائی کا سفر شروع ہوا تھا۔ کہنے لگے "میرے بیٹے نے مجھے اس لڑکی کے بارے میں بتایا جس سے وہ مستقبل میں شادی کرنے کا خواہش مند ہے۔ میں نے اُسے ڈانٹا نہیں اور بہت پیار سے اُسے یقین دلایا کہ آپ کی شادی وہیں ہو گی جہاں آپ چاہتے ہیں۔ہم مشرقی طور طریقے کے مطابق،رشتہ مانگنے جائیں گے۔۔ بس آپ نے دو کام کرنے ہیں۔ ایک آپ نے اپنی تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا، دوسرا اس لڑکی کے ساتھ دل لگی نہیں بلکہ سنجیدہ تعلق رکھنا ہے۔ اگر آپ دورانِ تعلیم، شادی بھی کرنا چاہیں۔۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ شادی کے بعد تعلیم جاری رکھے۔ ہماری بہو بن کر تعلیم جاری رکھنا چاہے تو یہ بھی اچھا ہو گا۔ ہمیں اور کیا چاہئیے۔ ہم دادا دادی بن جائیں گے۔ بچوں کے ساتھ کھیلیں گے۔ہمارے لئیے بھی ایک مصروفیت ہوگی۔میرا بیٹا کہنے لگا ابو۔۔!! "مجھے آپ کی عزت سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ اگر یہ کام ہو گا تو مکمل عزت و احترام سے ہو گا"۔
دوست کہنے لگے "مجھے اپنے بیٹے کہ ان الفاظ سے خوشی ہوئی اور زیادہ خوشی اس بات پہ ہوئی کہ اُس نے مجھ سے یہ بات چھپائی نہیں "۔
ذرا سوچئیے۔۔۔!!
میرے دوست سخت مزاج اور سخت گیر ہوتے، اولاد اُن سے دور بھاگتی اور اُن سے ڈرتی لیکن کرتی سب کچھ، وہ جو دوست کے بیٹے نے بتایا تو اُس کا انجام کیا ہوتا۔ ایک روز سب کچھ لاوا کی صورت پھٹتا اور خاندان کے تمام ممبرز کو بکھیر کر رکھ دیتا۔
اگر نرم روی اور حلم و بردباری کا معاملہ اولاد کے ساتھ رکھا جائے تو اولاد اپنی ہر بات والدین کو بتاتی ہے۔ اگر والدین کا ردِّ عمل دوستانہ اور خیر خواہانہ ہو تو اولاد نہ صرف سنتی ہے بلکہ عزت و احترام سے والدین کی بات مانتی بھی ہے۔ اِس طرح خاندان کا شیرازہ بکھرنے سے محفوظ رہ جاتا ہے ورنہ انا پرستی اور کشمکش میں یہ دوری بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس کا انجام پچھتاوے اور حسرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔(
صاحبزادہ محمد امانت رسول)
Comments
Post a Comment