انٹارکٹیکا

اپنی دنیا کو جانیں
_____انٹارکٹیکا (ANTARCTICA)_____

تحریر : ضیاءالمجید

انٹارکٹیکا دنیا کا سرد ترین، بلند ترین اور انسانی آبادی کے لحاظ سے ویران ترین براعظم ہے جو دنیا کی تیز ترین ہواؤں کا مسکن ہے. اس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے.اس کی زمین کا اٹھانوے فیصد حصہ کئی کلومیٹر موٹی برف کی تہ سے ڈھکا ہوا ہے. یہ یورپ سے اٹھائیس گنا بڑا ہے اس کے باوجود اسے انیسویں صدی میں دریافت کیا گیا. اس کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی خاطر کئی انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جا چکا ہے.
اس برف کے صحرا میں ایسے ایسے عجوبے موجود ہیں جو دیکھے جانے کے قابل ہیں. یہاں ایسی وادیاں ہیں جو مریخ کی سر زمین سے مشابہت رکھتی ہیں. ناسا کے سائنسدان اپنے سائنسی آلات کو وہاں آزماتے ہیں.
برف کی موٹی تہ کے نیچھے چھپی ہوئی جھیلیں ہیں جو مستقل طور پر روشنی سے محروم ہیں وہاں بیکٹیریا کی صورت میں زندگی کا ہونا بھی عجوبے سے کم نہیں ہے. انٹارکٹیکا کو بحرِجنوبی نامی سمندر نے گھیرا ہوا ہے جس میں پائی جانے والی مچھلیوں کے خون میں ایسا مادہ (antifreeze)پایا جاتا ہے جو انھیں یخ بستہ پانیوں میں بھی جمنے سے محفوظ رکھتا ہے
انٹارکٹکا دنیا کے سب سے بڑے جاندار "بلیو وہیل مچھلی" کا بھی گھر ہے. یہاں دو لاکھ کی تعداد میں یہ مچھلی پائی جاتی ہے. اس کی لمبائی قریبا ایک سو فٹ تک جب کہ وزن 173000 کلو تک جا سکتا ہے.
یہ براعظم حیرت انگیز سمندری پرندے "پینگوئن" کا مسکن ہے. جو پرواز کی صلاحیت سے تو محروم ہیں لیکن سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ خوری کرتے ہوئے مچھلیوں کا شکار کرنے میں طاق ہیں. یہ عظیم الجثہ جاندار شدید سردی کے موسم میں 9 ہفتے تک بغیر کچھ کھائے زندہ رہ سکتا ہے. سخت سردی کے ان 9 ہفتوں میں پینگوئن اپنے انڈوں کو گرم رکھنے کے لیے اپنے پاؤں پر اٹھائے رکھتے ہیں. یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ نر پینگوئن یہ مشقت بھرا کام کرتے ہیں جبکہ مادہ پینگوئن اس دوران خوراک کی تلاش میں غوطہ خوری کرتی رہتی ہے. پینگوئن سردی کی شدت میں خود کو گرم رکھنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں ،ان کا اکٹھ پانچ ہزار پینگوئنز سے متجاوز ہو سکتا ہے.
انٹارکٹکا اس قدر سرد براعظم ہے کہ وہاں گرمیوں کے موسم میں جو کہ جنوری اور فروری میں آتا ہے اور جب چوبیس گھنٹے سورج کی روشنی پڑتی ہے... اس دوران بھی ڈیزل جیسا مائع برف کی ٹکڑیاں بن جاتا ہے.
یہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی 90 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والے فریزر میں درجہ حرارت منفی اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہی گرایا جا سکتا ہے.
انٹارکٹیکا دنیا میں سب سے زیادہ طوفانی ہواؤں کا حامل براعظم ہے.اونچی جگہوں پر برف کی تہ ہواؤں کو سرد کرتے ہوئے وزنی کردیتی ہے یہ ہوائیں جب نشیبی علاقوں کی طرف چلتی ہیں تو ان کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے. ان ہواؤں سے تیز طوفانی جھکڑ پیدا ہوتے ہیں جن کی رفتار بعض اوقات دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے.یہ تیز ہوائیں بالکل خشک ہوتی ہیں کیونکہ نمی کے قطرے برف بن کر نیچے گر جاتے ہیں.
انٹارکٹیکا برف کی دو بہت بڑی تہوں پر مشتمل ہے جنھیں ایک پہاڑی سلسلے نے جدا کیا ہوا ہے.یہ دونوں تہیں دنیا کے ستر فیصد تازہ پانی پر مشتمل ہیں. اگر یہ دونوں برف کی تہیں پگھل جائیں تو سمندروں کی سطح ستر میٹر (230 فٹ) تک بلند ہو جائے گی اور دنیا کے کئی بڑے شہر زیر آب آ جائیں گے.
انٹارکٹکا کا اٹھانوے فیصد سے بھی زائد رقبہ جمے ہوئے پانی سے ڈھکا ہے لیکن اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر یہ ایک بہت بڑے صحرا کی حیثیت رکھتا ہے. یہاں بارش تو برسنے سے قاصر ہے اس کی جگہ برف باری ہوتی ہے جو سالانہ صرف دو انچ (پانچ سینٹی میٹر) ہوتی ہے. جبکہ صحرائے صحارا میں ہر سال دس انچ (پچیس سینٹی میٹر) بارش ریکارڈ کی جاتی ہے.

(درج بالا مضمون لکھنے کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع استعمال کیے گئے
How it works (science magazine)
Wikipedia
Www.bbc.com
National Geographic )

Comments

Popular posts from this blog

شعور اور لاشعور

نسوار کیا ہے