پانچواں کبوتر
پانچواں کبوتر
ماسٹر صاحب بچے کو بڑی جان مار کے حساب سکھا رھے تھے، وہ ریاضی کے ٹیچر تھے اُنہوں نے بچے کو اچھی طرح سمجھایا کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں ۔
مثال دیتے ہوئے انہوں نے اسے سمجھایا کہ یوں سمجھو کہ میں نے پہلے تمھیں دو کبوتر دئے، پھر دو کبوتر دئے؛ تو تمھارے پاس کل کتنے کبوتر ہو گئےــــــ؟
بچے نے اپنے ماتھے پہ آئے ہوئے silky بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتے ہوئے جواب دیا کہ
*ماسٹر جی "پانچ"*
ماسٹر صاحب نے اسے دو پنسلیں دیں اور پوچھا کہ یہ کتنی ہوئیں؟
بچے نے جواب دیا کہ دو ۔
پھر دو پنسلیں پکڑا کر پوچھا کہ اب کتنی ہوئیں؟
*"چار" بچے نے جواب دیا.*
ماسٹر صاحب نے ایک لمبی سانس لی جو اُن کے اطمینان اور سکون کی علامت تھی ۔
پھر دوبارہ پوچھا ؛
اچھا اب بتاؤ۔ فرض کرو کہ میں نے پہلے تمھیں دو کبوتر دئیے پھر دو کبوتر دیئے تو کُل کتنے ہو گئے..؟ *"پانچ" بچے نے فورًا جواب دیا۔*
ماسٹر صاحب جو سوال کرنے کے بعد کرسی سیدھی کر کے بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے اس زور سے بدکے کہ کرسی سمیت گرتے گرتے بچے۔
اؤ احمق! پنسلیں دو اور دو "4" ہوتی ہیں تو کبوتر دو اور دو "5" کیوں ہوتے ہیں ؟
اُنہوں نے رونے والی آواز میں پوچھا
"ماسٹر جی ایک کبوتر میرے پاس پہلے سے ہی ہے" بچے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
ہم مسلمان تو ہو گئے مگر کچھ کبوتر ھم اپنے آباؤ اجداد سے لے آئے ہیں اور کچھ معاشرے سے لے لئے ہیں۔
اسی لئے جب قرآن کی بات سنتے ہیں تو سبحان اللہ بھی کہتے ہیں ۔
جب حدیث نبوی سنتے ہیں تو درود بھی پڑھتے ہیں ۔
*مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو باپ دادا اور معاشرے والا کبوتر نکال لیتے ہیں ۔*
شادی بیاہ کی رسمیں دیکھ لیں. ہندو' سکھ اور مسلمان کی شادی میں فرق صرف پھیروں اور ایجاب و قبول کا ہے. باقی ہندو دولہے کی ماں بہن ناچتی ہے تو مسلمان کی شادی پہ بھی منڈے کی ماں بہن نہ ناچے تو شادی نہیں سجتی وراثت میں ہندو قانون لاگو ہے...بیٹی کا کوئی حصہ نہیں. جہیز ہندو رسم ہے کہ بیٹی کو جائیداد میں حصہ تو دینا نہیں لہدْا جہیز کے نام پر مال بٹورو اور یہی کام آج کا مسلمان کر رہا ہے۔اور تو اور ھر اسلامی سنت اور حکم و احدیث کی نفی اور اپنی سہل پسندی کے لئے دین کو بدلنا چاھتا ھے.باقی خیر سے
جو اسلام سے پہلے ہی ہمارے پاس ہے، ہم نے *کلمے کی "لا"* کے ساتھ اس پانچویں کبوتر کو اڑا کر پنجرہ خالی نہیں کیا۔.....
Comments
Post a Comment