لبرلزم کیا ہے ؟
لبرلزم کیا ہے ؟
تحریر : محمّد سلیم
اکثر لوگوں سے آپ نے سنا ہو گا کہ ہم بڑے لبرل ہیں ۔ آخر یہ لبرلزم ہوتا کیا ہے ؟ اس کا مطلب کیا ہے ؟
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا مطلب ہے معتدل مزاج لوگ ۔ مگر یہ تشریح غلط ہے ۔
لبرلزم کو سمجھنے کے لیئے ایک مثال کو سمجھیں ۔
فرض کریں آپ کسی کمپنی میں ملازمت کے لیئے اپلائی کرتے ہیں ۔ آپ کمپنی کو یقین دلاتے ہیں کہ آپ اس کے لیئے سود مند ثابت ہو سکتے ہیں اور کمپنی کی طرف سے بنائے جانے والے تمام قوانین و ضوابط پر عمل کریں گے ۔ کمپنی آپ کو بتاتی ہے کہ ڈیوٹی ٹائم صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک ہے اور ڈیوٹی کے لیئے کمپنی کے مقرر کردہ سفید یونیفارم کی شرط ہے ۔ آپ کا کام بھی آپ کو اچھی طرح سمجھا دیا جاتا ہے ۔ اس کے بدلے میں کمپنی آپ کو مخصوص تنخواہ اور دیگر مراعات دینے کا وعدہ کرتی ہے ۔
معاہدہ ہو جاتا ہے اور آپ کمپنی کے ملازم ہو جاتے ہیں ۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد آپ کمپنی کے قوانین سے انحراف شروع کر دیتے ہیں ۔
آپ کمپنی کے مقرر کردہ وقت صبح 9 بجے کے بجائے 12 بجے تشریف لاتے ہیں اور شام 5 بجے سے پہلے ڈیوٹی چھوڑ کر گھر چلے جاتے ہیں ۔ آپ کمپنی کا سفید یونیفارم چھوڑ کر اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ کمپنی کے لیئے ہر قسم کی خدمات کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ پھر مزید ستم یہ کرتے ہیں کہ کمپنی کے ایسے ملازمین جو یکسوئی سے اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں ۔ وقت پر ڈیوٹی پر آتے ہیں اور ذمے داریاں نبھاتے ہیں ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں ۔ انہیں ان کی وقت کی پابندی خدمات اور یونیفارم کی پابندی پر طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں ۔پھر جب کمپنی کے کسی تکنیکی کام میں آپ پھنس جاتے ہیں تو انہیں کی مدد بھی حاصل کرتے ہیں ۔
یہی معاملہ دینِ اسلام کا بھی ہے ۔ دینِ اسلام میں داخل ہونا کوئی زبردستی کا سودا نہیں ہے ۔ نہ ہی اس دین کے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ کسی کو زبردستی اپنے دین میں شامل کر لیں ۔ صرف احسن تبلیغ کا حکم ہے ۔ فیصلہ سازی کا آخری اختیار بہرحال آپ کے پاس ہے ۔
اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ آپ کے ماں باپ مسلمان تھے اور آپ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہو گئے ہیں لہٰذا آپ مجبور ہیں ۔
آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو ایک ہندو ہونا چاہیئے اور تین کروڑ خداؤں کی پوجا کرنی چاہیئے تو شوق سے کیجیئے ۔ سانپ بندر اور ہاتھی کے بت بنایئے اور پوجنا شروع کر دیجیئے ۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ایک کے بجائے تین خدا ہونے چاہیئں جن میں ایک باپ ایک بیٹا اور ایک مقدس روح ہو تو عیسائیت کو آزما لیجیئے ۔
اگر آپ کو لگتا ہے یہودیت, بدھ مت یا سکھ مت آپ کے لیئے زیادہ بہتر ہو سکتا ہے تو اسے بھی پڑھ کر دیکھ لیں ۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ دنیا کسی حادثے کا نتیجہ ہے اور انسان اس حال میں کسی حقیر کیڑے سے ارتقاء پزیر ہوا ہے تو الحاد و سائنس میں عقل کے گھوڑے دوڑائیے ۔ سوچئے بیٹھ کر کہ کائنات کا یہ عظیم ترین کارخانہ بغیر کسی خدا کے کیسے تخلیق ہو گیا اور چل کیسے رہا ہے ۔ اسٹیفن ہاکنگ اور رچرڈ ڈاکنز کی ساری کتابیں پڑھ ڈالیئے ۔
لبرل کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے جو اسلام نام کی کمپنی میں ملازمت اختیار کرتا ہے مگر اس کے قوانین سے انحراف کرتا ہے ۔ اسے مراعات اسلام سے درکار ہیں مگر بجائے اس کے کہ وہ اسلام کی خدمت کرے الٹا اسلام کے خدمت گاروں کا مذاق اڑاتا ہے ۔ انہیں مولوی قرار دے کر خود کو ان سے مختلف سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ پھر جب کسی تکنیکی مسئلے میں پھنس جاتا ہے مثلاً امامت, نکاح یا جنازہ وغیرہ پڑھوانا ہوتا ہے تو اسی مولوی کے پیچھے پیچھے گھومتا ہے کہ یہ کام تو مجھے نہیں آتا تم کر دو ۔
لبرل وہ ہوتا ہے جو دین اور مراعات کے حصول کے لحاظ سے پسند تو اسلام کو ہی کرتا ہے مگر قوانین پر عمل پیرا ہونا نہیں چاہتا ۔ وہ چاہتا ہے کہ میں کام نہ کروں مگر تنخواہ پاؤں ۔ تمام سہولیات سے آراستہ رہوں ۔
ایسے دیوانوں کی دنیا میں کوئی کمی نہیں جو کام تو کسی اور کمپنی کے لیئے کرتے ہیں اور تنخواہ مانگنے کسی اور کمپنی کے مالک کے در پر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
اس کی مثالیں ماضی میں ڈاکٹر رتھ فاؤ اور اسٹیفن ہاکنگ کے انتقال پر سامنے آتی رہی ہیں ۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کے انتقال پر مسلمانوں ہی میں موجود کچھ لبرلز کی رائے یہ تھی کہ انہیں اسلام کی مذکورہ جنت میں داخلہ و اجر ملنا چاہیئے ۔
کیوں ؟
جس مذہب کی وہ حامل تھی یعنی عیسائیت ۔ کیا اس میں جنت و جہنم کا تصور موجود نہیں ؟ یعنی ساری زندگی جس مذہب کو سچا سمجھتی رہیں مرنے کے بعد اسی پر سے اعتبار ختم ہو گیا کہ پتہ نہیں وہاں جنت ہو گی بھی یا نہیں ؟ اب مسلمانوں کی جنت درکار ہے ؟
اسٹیفن ہاکنگ تاعمر یہ سمجھتے رہے کہ کوئی خدا نہیں ۔ کائنات کا یہ سارا کارخانہ خودبخود وجود میں آگیا ۔ نہ کوئی جنت ہے نہ کوئی جہنم ۔ ان کے مرنے پر بھی لبرلز کو اس بات کی فکر ستانے لگی کہ اتنا عظیم ترین سائنسدان کہیں جہنم میں ہی نہ چلا جائے ۔ اتنا سفارش کا شوق تھا تو پڑھ لیتے نماز جنازہ اس کی بھی ۔ کرتے مغفرت کی دعا ۔
احمقانہ سوچ کی انتہا یہی ہے کہ تاعمر جہنم کا انکار کیا اور مرنے کے بعد اس کی بابت اوروں کو فکر کہ کہیں جہنم میں چلا ہی نہ جائے ۔ جب جنت و جہنم کا وجود ہی نہیں تو مرنے کے بعد ختم کہانی ۔ اب موج کرو ۔ اور اگر جنت و جہنم ہے تو زندگی میں عقل استعمال کرنی تھی ۔ اب کیا فائدہ ۔
لبرلز کی مثال ایک ایسے ابو کی سی ہے جس کا نالائق بیٹا کوئی جرم کر لے تو وہ لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑتا پھرتا ہے کہ وہ تو پاگل تھا تم لوگ اس سے چشم پوشی کرو ۔
مزید لبرل کی مثال اس عبداللہ کی سی ہے جو ہر شادی میں ناچنے پہنچ جاتا ہے ۔ مسلمانوں کی عیدوں کو مسلمانوں کی طرح انجوائی کرتا ہے ۔ ہندوؤں کی ہولی دیوالی پر رنگ چھوڑتا اور پٹاخے پھوڑتا نظر آتا ہے ۔ کرسمس ایسٹر گڈ فرائڈے وہ ایسے مناتا ہے جیسا شائد عیسائی بھی نہیں مناتے ۔
اس قسم کی زندگی گزارنے کے بعد جنت اسے مسلمانوں والی ہی درکار ہوتی ہے ۔ کبھی زندگی میں مرے ہوئے باپ کے لیئے صدقہ جاریہ نہیں بنتا ۔ نہ اس کے حق میں دعا کرتا ہے نہ کوئی اور عبادت ۔ مگر اپنے بچوں کو نصیحت کرتا ہے کہ تم میرے لیئے ضرور مغفرت کی دعائیں مانگنا ۔ ابھی بے شک تم ڈانس پارٹی میں چلے جاؤ ۔ شراب پیو شباب کے مزے لوٹو ۔ مگر میرے مرنے کے بعد ٹوپی پہن کر سیدھے مسجد جانا اور خوب نمازیں اور قران پڑھنا ۔
ایسی سوچ رکھنے والے لوگوں کو لبرلز کہا جاتا ہے ۔
Comments
Post a Comment