دو_گلوکار_دو_کہانیاں
#دو_گلوکار_دو_کہانیاں
انسان چلا جاتا ہے۔ کہانی رہ جاتی ہے۔ وہ کہانی کیا جس میں سبق نہ ہو۔
چیسٹر بیننگٹن (لنکن پارک بینڈ کے گلوکار) نے خود کو لٹکا کر موت کے حوالے کر دیا۔ لاکھوں کروڑوں اس کے گانوں پر مرنے والے موجود ہیں۔ کوئی اسے نشے اور ڈیپریشن سے نہ بچا سکا۔ اسے قلبی سکون موت ہی میں تلاش کرنا پڑا۔ پھندے سے جھولنے سے قبل اس کے دماغ کے پردے پر کون سے سائے منڈلائے ہوں گے؟ کیا آخری سانس سے پہلے اس نے سکون پا لیا ہو گا؟ شہرت سے پھندے تک کے اس سفر میں سوائے کھونے کے اس نے کیا پایا؟ کچھ بھی نہیں۔
پھر ایک دوسری کہانی بھی ہے۔ ایک ایسے شخص کی کہانی جس کی وجاہت اور مدھر آواز پر زمانہ مرتا تھا۔ چیسٹر کی طرح وہ بھی سکون کا متلاشی تھا۔ اسے بھی زندگی میں کچھ کمی لگتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ شہرت سے پھندے تک پہنچنے کی بجائے وہ شہرت سے مسجد تک آ نکلا۔
طیارہ جب چترال سے واپسی پر فضا میں ہچکولے کھاتا ہوا زمین سے ٹکرانے کو بھاگتا چلا جا رہا ہو گا تو جنید جمشید کے دماغ کے پردے پر کون سے سائے منڈلائے ہوں گے۔ یہ بات میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ پر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ چیسٹر کی طرح جان جسم سے نکلنے کے مراحل جنید جمشید کے لئے بہت مختلف رہے ہوں گے۔ جس سکون کی تلاش چیسٹر کو موت تک کھینچ لائی، وہ سکون جنید موت سے پہلے پا چکا ہو گا۔ میرا رب ہر ایک کو اپنی راہ میں یوں لگا کر ایسی میٹھی موت تھوڑی دیتا ہے!
داڑھی چہرے پر سجانے سے پہلے جنید جمشید نے یہ بول گائے تھے۔ اس کے شو بزنس کے آخری دنوں کی کاوش ہیں یہ، جب وہ کشمکش میں تھا۔ چیسٹر کی طرح۔ یہ بول اس کے سفر کی کہانی کا حاصل ہیں۔ سبق ہے ان میں۔ کوئی سنے تو۔۔۔
ہم کیوں چلیں اس راہ پر
جس راہ پر سب ہی چلیں
کیوں نہ چنیں وہ راستہ
جس پر نہیں کوئی گیا
دل اداس نظریں اداس
دلبر نہیں گر آس پاس
دن رات آہ بھرنا
اور بے قرار رہنا
یہ کھیل ہی بے کار ہے
کچھ بھی نہیں انگار ہے
اس آگ میں جلیں کیوں
پل پل جئیں مریں کیوں
بس دیکھنے کی بات ہے
ایک عشق کیا ہیں ہزار عشق
لاکھوں صنم چھپے ہیں
اور راہ دیکھتے ہیں
چلو عشق کا کہا مان کر
اپنا صنم پہچان کر
کسی ایسے رنگ میں رنگ جائیں
سب سے جدا نظر آئیں
سب سے جدا نظر آئیں
سب سے جدا نظر آئیں۔۔۔
ہم کیوں چلیں اس راہ پر
جس راہ پر سب ہی چلیں
کیوں نہ چنیں وہ راستہ
جس پر نہیں کوئی گیا
~عزیر سرویا
Comments
Post a Comment