فکر انگیز تحریر
ایک بادشاہ نے ایک عظیم الشان محل تعمیر کروایا، جس میں ہزاروں آئینے لگائے گئے تھے۔ ایک مرتبہ ایک کتا کسی نہ کسی طرح اس محل میں جا گھسا۔ رات کے وقت محل کا رکھوالا محل کا دروازہ بند کر کےچلا گیا لیکن وہ کتا محل میں ہی رہ گیا۔ کتے نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی تو اسے چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں کتے نظر آئے۔ اسے ہر آئینے میں ایک کتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کتے نے کبھی اپنے آپ کو اتنے دشمنوں کے درمیان پھنسا ہوا نہیں پایا تھا۔ اگر ایک آدھ کتا ہوتا تو شائد وہ اس سے لڑ کر جیت جاتا۔ لیکن اب کی بار اسے اپنی موت یقینی نظر آ رہی تھی۔ کتا جس طرف آنکھ اٹھاتا اسے کتے ہی کتے نظر آتے۔ اوپر اور نیچے چاروں طرف کتے ہی کتے تھے۔ کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانا چاہا، دھیان رہے کہ دوسروں کو ڈرانے والا دراصل خود ڈرا ہوا ہوتا ہے۔ ورنہ کسی کو ڈرانےکی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانے کی کوشش کی تو وہ سینکڑوں کتے بھی بھونکنے لگے۔ اس کی نس نس کانپ اٹھی۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ وہ چاروں طرف سے گھر چکا تھا۔
صبح چوکیدار نے دروازہ کھولا تو محل میں کتے کی لاش پڑی تھی۔ اس محل میں کوئی بھی موجود نہ تھا، جو اسے مارتا محل خالی تھا لیکن کتے کے پورے جسم میں زخموں کے نشان تھے۔ وہ خون میں لت پت تھا۔ اس کتے کے ساتھ کیا ہوا ؟؟؟؟ خوف کے عالم میں وہ کتا بھونکا جھپٹا دیواروں سے ٹکرایا اور مر گیا۔
ہمارے سبھی تعلقات، سبھی حوالے آئینوں کی مانند ہیں۔ ان سب میں ہم اپنی ہی تصویر دیکھتے ہیں۔ نفرت سے بھرا آدمی یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ سب لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ لالچی آدمی کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب اس کو لوٹنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ وہ اپنے لالچ کی تصویر دنیا کے آئینہ خانے میں دیکھتا ہے۔ شہوانیت کا مریض سوچتا ہے کہ ساری دنیا اسے جسم پرستی کی دعوت دے رہی ہے۔ فقیر کہتا ہے کہ ساری دنیا ایک ہی اشارہ کر رہی ہے کہ چھوڑ دو سب کچھ بھاگ جاؤ دنیا سے۔ ہم جو کچھ بھی ہیں وہی کچھ ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی پڑتا ہے۔ سارا جگ آئینہ ہے جس میں ہمیں اپنا آپ ہی دکھائی پڑ رہا ہوتا ہے۔
اپنے ارد گرد کے آئینوں کو اپنے عمل، کردار اور اخلاق کے ساتھ صاف رکھنے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ ہمارا آئینہ ہمارے لئے راہِ نجات بھی ہے اور باعث پکڑ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment