کلوننگ کیا ہے اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
کلوننگ کیا ہے ؟ (?what is cloning)
آج کے ترقی یافتہ دور میں کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار بہت حد تک سائنس اور ٹیکنالوجی پر منحصر ہے۔اس جدید دور میں معمولی سی مشین سے لے کرانسانی صحت اور دل کی نازک مشینوں کو چلانے کیلئے سائنس کا علم ضروری ہے۔سائنس نے ہماری زندگی سوچ کردار اور رویوں کو بدل کر رکھ دیا ہے سائنس نے انسان کے مسائل کو دور کرنے کی کوشش کی ہے انسانوں کے اندر وسیع ا لنظری کو پیدا کیا ہے اور اس نے فطرت کے قوانین کو اس طریقے سے استعمال کرنا سیکھ لیا ہے کہ اس کی زندگی میں ایک انقلاب آ رہا ہے اس جدید دور میں نئے نئے سائنسی انکشافات سے عقل انسانی دنگ ہے ایک طرف سائنس نے موذی امراض کا علاج دریافت کیا سورج کی شعاؤں کو مسخر کیا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تحقیق سے آج لاکھوں افراد جو اولاد کی نعمت سے محروم تھے اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں معزز قارئین جہاں سائنسی ترقی انسان کیلئے مفید ہے وہاں اس کی اپنی ایجادات نے ہی اسے مشکلات و مصائب میں گرفتار کر دیا ہے اور یہی ایجادات اس کیلئے خطرات کا سبب بن رہی ہیں یہ دہشت و بربریت ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی انہی ایجادات کی بدولت انسانیت تباہی و بربادی سے دوچار ہوئی آج بڑی طاقتوں کو اپنے ہی بنائے ہوئے مہلک ہتھیاروں کی حفاظت کرنا، ان کو ضائع کرنا، ان کے استعمال کو روکنا اور مستقبل میں ان کو تیار نہ کرنا ہی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے جس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا واجب الاحترام قارئین اس وقت’’ کلوننگ‘‘ دنیا میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع ہے جس نے دنیا کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے کلوننگ لفظ کلون سے نکلا ہے جس کے لفظی معنے جنسی تعلق یا عمل کے بغیر خلیے،جرسومے یا ریشے تخلیق کرنا ہے یہ عمل ڈی این اے کے ذریعے ممکن بنایا گیا فروری1997ء میں اسکاٹ لینڈ کے ایک ماہر حیاتیات ڈاکٹر ویلمٹ ٹکنیک کے ذریعے بھیڑکا ایک بچہ پیدا کیا جس کے بعد کلوننگ پر باقاعدہ بحث کا آغاز ہوا در اصل کلوننگ افزائش نسل کا جدید طریقہ ہے جس میں بچہ بغیرجنسی احتلاط کے پیدا کیا جا سکتا ہے اس سے قبل یہ پودوں اور اور معذور افراد کے علاج کیلئے استعمال کی جاتی رہی جس سے لاکھوں معذور افراد مستفید ہو کرمکمل زندگی گزارنے کے قابل ہوئے ڈاکٹر ویلمٹ نے بذریعہ کلوننگ بھیڑ کے بچے کی پیدائش کی کامیابی پر اپنی نئی تخلیق کا نام’’ڈالی‘‘ رکھا ۔ڈالی اپنے آغاز ہی سے دنیا بھر میں ہدف تنقید بن گئی اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا جنوری 1998 ء میں امریکی سائنس دان ڈاکٹر رچرڈ سیڈ نے اعلان کیا کہ وہ عنقریب انسانی کلوننگ شروع کر رہا ہے ایک با ر پھر یہ موضوع زبان زد خاص و عام ہو گیا اس پر جہاں سائنسی دنیا نے اعتراض کیا وہاں مذہبی حلقے اس کی مخالفت میں پیش پیش تھے ان کا خیال تھا کہ یہ ٹیکنیک خدائی اختیار میں دخل اندازی ہے اور فطرت کے خلاف یہ کام سیکولر مذہبی تہذیب کی ایک سازش ہے اور اس ٹیکنیک کو جاری رکھنا اﷲ کے غضب کو دعوت دینا ہے فرانسیسی سائنس دان کا کلوننگ کے ذریعے پہلی کلون بچی حوا کی پیدائش کے دعویٰ پر ایک بار پھر کلوننگ دنیا میں ہدف تنقید بن گئی ایک بار پھر اس کی حمائت اور مخالفت میں دلائل دیے جانے لگے اور علماء کی طرف سے اس کے خلاف فتوے جاری کئے گئے اس کی مخالفت میں دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی پیش پیش ہیں اطلاعات کے مطابق اس وقت دو ہزار افراد ایسے ہیں جو کلوننگ کرانا چاہتے ہیں اور آئے دن کلون بچے کی پیدائش کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں کلوننگ کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے سائنس دانوں کے مطابق جو اس نئی ٹیکنیک سے منسلک ہیں کا کہنا ہے کہ عام انسان اور کلون شدہ انسان میں کوئی فرق نہیں ہوتا کلون شدہ انسان جسمانی ساخت،روحانی اوصاف اور انسانی جذبات کے لحاظ سے اسی طرح ہو گا جس طرح کہ عام انسان ہوتا ہے اس کی مثال جڑواں بچوں کی طرح ہے کلوننگ بچے کی نشوو نما بھی رحم مادر میں ہوتی ہے اور یہ تمام سامان نشوونما اپنی ماں سے حاصل کرتا ہے اس کی پیدائش بالکل انہی مراحل سے گزرتی ہے جن مراحل سے ایک عام بچہ گزرتا ہے کلوننگ کیلئے سیل بھی انسانی جسم سے لیا جاتا ہے اس لحاظ سے اسے نئی تخلیق قرار نہیں دیا جا سکتا اس کی مخالفت میں’’ایلڈوس ہکسلے‘‘ نے لکھا تھا کہ ظالم لوگ اس طرز تحقیق کو ایک صنعت کی شکل دے دیں گے اور جس طرح ہر صنعت کار انسانیت کا خون چوستا ہے اس طرح اس صنعت کے مالک بھی انسانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کریں گے ہم شکل انسانوں کے لشکر پر لشکر تیار ہونا شروع ہو جائیں گے اور ان کے جسمانی اعضاء کی فروخت کا دھندہ عام ہو جائے گا اور اس طرح انسانیت کی خدمت کی بجائے صنعت کار اس کو ہوس زر کی بھینٹ چڑھا دیں گے۔معزز قارئین سائنس دانوں کے مطابق کلوننگ سے پیدا ہونے والوں کی عمروں میں پچاس فیصد تک اضافہ ممکن بنا دیا گیا ہے یہ کائنات اﷲ کی ہی بنائی ہوئی ہے اور اس میں ہر ذی روح نے وقت مقررہ پر موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور یہ اسی کی قدرت کا صلہ ہے کہ کائنات اپنے سفر پر رواں دواں ہے خدائے بزرگ و برتر نے ہر جاندار کے پیدا ہونے کا ایک فطری طریقہ رکھا ہے انسانوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بنائی گئیں،ان کے فنگر پرنٹ ایک دوسرے سے مختلف رکھے کلوننگ کا عمل جاندار جین(خلیے،جرثومے یا ریشے) کی مدد سے یعنی جینaسے ایک اور جین aتیار کر لیا جاتا ہے جو صورت شکل،رنگ،قد،بال یعنی ہر لحاظ سے جین aسے مشابہت رکھتا ہے حتیٰ کہ اس کے فنگر پرنٹ بھیایک جیسے ہوتے ہیں دوسرے الفاظ میں ایک جیسے متعدد جانور انسان اور جاندار تخلیق کئے جا سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً معاشرے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔کوئی بھی ایجاد ہو جس میں انسانیت کی فلاح و بہبود پنہاں ہو یہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ،عطااور نوازش ہوتی ہے وہی سب کو نوازتا ہے خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ دنیا میں نشانیاں ہیں عقل والوں کیلئے،اس کا مقصد ہے کہ ہم اپنی عقل کو استعمال میں لا کر کائنات کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھائیں سائنس حکمت کا علم ہے جو انسان کو ارد گرد ہونے والے مظاہر فطرت کو پہچاننے اور اس سے استفادہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے قرآن کریم انسان کو قدم قدم پر تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ اس کائنات کی ہر شے قانون کی زنجیروں میں جکڑی ہے اس پر گور و فکر کرو اور اپنے اسعمال میں لاؤ لیکن یہ ترقی اور استفادہ روحانی قوت کے بغیر کمزور اور مفلوج ہے۔جب تک کلوننگ کی ٹیکنیک کے جملہ پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا جاتا اور یہ معلوم نہیں کر لیا جاتا کہ یہ کس حد تک انسانوں کیلئے منفعت بخش ہے،صحیح ہے یا غلط ہے،اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کے متعلق درست پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی اس کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں ابھی تک حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکی ابھی اکثریت اس کے متعلق خدشات و تحفظات کا شکار ہے اور بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات دینا ابھی باقی ہیں کہ یہ ٹیکنیک بچوں کی صحت اور انسانوں کیلئے کس حد تک محفوظ ہے۔
Comments
Post a Comment