ان پڑ سرجن
ان پڑھ سرجن۔
کیپ ٹاﺅن کی میڈیکل یونیورسٹی کو طبی دنیا میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن اسی یونیورسٹی میں ہوا تھا۔ اس یونیورسٹی نے تین سال پہلے ایک ایسے سیاہ فام شخص کو ”ماسٹر آف میڈیسن“ کی اعزازی ڈگری دی جس نے زندگی میں کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔
جو انگریزی کا ایک لفظ نہیں پڑھ سکتا تھا اور نہ ہی لکھ سکتا تھا لیکن 2003ءکی ایک صبح دنیا کے مشہور سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں اعلان کیا،ہم آج ایک ایسے شخص کو میڈیسن کی اعزازی ڈگری دے رہے ہیں جس نے دنیا میں سب سے زیادہ سرجن پیدا کیے،
جو ایک غیر معمولی استاد اور ایک حیران کن سرجن ہے اور جس نے میڈیکل سائنس اور انسانی دماغ کو حیران کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پروفیسر نے ہیمیلٹن کا نام لیا اور پورے ایڈیٹوریم نے کھڑے ہو کراس کا استقبال کیا ۔
یہ اس یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال تھا“۔نوجوان چپ چاپ سنتا رہا۔ میں نے عرض کیا ”ہیملٹن ناکی کیپ ٹاﺅن کے ایک دور دراز گاﺅں سنیٹانی میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین چرواہے تھے، وہ بکری کی کھال پہنتا تھا اور پہاڑوں پر سارا سارا دن ننگے پاﺅں پھرتاتھا، بچپن میں اس کاوالد بیمار ہوگیا لہٰذاوہ بھیڑ بکریاں چھوڑ کر کیپ ٹاﺅن آگیا۔
ان دنوں کیپ ٹاﺅن یونیورسٹی میں تعمیرات جاری تھیں۔ وہ یونیورسٹی میں مزدور بھرتی ہوگیا۔اسے دن بھر کی محنت مشقت کے بعد جتنے پیسے ملتے تھے ،وہ یہ پیسے گھر بھجوا دیتاتھا اور خود چنے چبا کر کھلے گراﺅنڈ میں سو جاتاتھا۔وہ برسوں مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔
تعمیرات کا سلسلہ ختم ہوا تو وہ یونیورسٹی میں مالی بھرتی ہوگیا۔ اسے ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے کا کام ملا، وہ روز ٹینس کورٹ پہنچتا اور گھاس کاٹنا شروع کر دیتا ، و ہ تین برس تک یہ کام کرتا رہا پھر اس کی زندگی میں ایک عجیب موڑ آیا اور وہ میڈیکل سائنس کے اس مقام تک پہنچ گیا جہاں آج تک کوئی دوسرا شخص نہیں پہنچا۔ یہ ایک نرم اور گرم صبح تھی“۔
پروفیسر رابرٹ جوئز زرافے پرتحقیق کر رہے تھے، وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے جب زرافہ پانی پینے کے لیے گردن جھکاتا ہے تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا، انہوں نے آپریشن ٹیبل پر ایک زرافہ لٹایا، اسے بے ہوش کیا لیکن جوں ہی آپریشن شروع ہوا زرافے نے گردن ہلا دی
چنانچہ انہیں ایک ایسے مضبوط شخص کی ضرورت پڑ گئی جو آپریشن کے دوران زرافے کی گردن جکڑکر رکھے۔ پروفیسر تھیٹر سے باہر آئے، سامنے ہیملٹن ناکی گھاس کاٹ رہا تھا، پروفیسر نے دیکھا وہ ایک مضبوط قد کاٹھ کا صحت مند جوان ہے۔ انہوں نے اسے اشارے سے بلایا اور اسے زرافے کی گردن پکڑنے کا حکم دے دیا۔
ہیملٹن ناکی نے گردن پکڑ لی، یہ آپریشن آٹھ گھنٹے جاری رہا۔ اس دوران ڈاکٹر چائے اور کافی کے وقفے کرتے رہے لیکن ہیملٹن زرافے کی گردن تھام کر کھڑا رہا۔ آپریشن ختم ہوا تو وہ چپ چاپ باہر نکلا اور جا کر گھاس کاٹنا شروع کردی۔
دوسرے دن پروفیسر نے اسے دوبارہ بلا لیا، وہ آیا اور زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا ہوگیا، اس کے بعد یہ اس کی روٹین ہوگئی وہ یونیورسٹی آتا آٹھ دس گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑتا اور اس کے بعد ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے لگتا، وہ کئی مہینے دوہراکام کرتا رہا اور اس نے اس ایکسٹرا ڈیوٹی کا کسی قسم کااضافی معاوضہ طلب کیااور نہ ہی شکایت کی۔
پروفیسر رابرٹ جوئز اس کی استقامت اور اخلاص سے متاثر ہوگیا اور اس نے اسے مالی سے ”لیب اسسٹنٹ“ بنا دیا۔
ہیملٹن کی پروموشن ہوگئی۔ وہ اب یونیورسٹی آتا، آپریشن تھیٹر پہنچتا اور سرجنوں کی مدد کرتا۔ یہ سلسلہ بھی برسوں جاری رہا۔
1958ءمیں اس کی زندگی میں دوسرا اہم موڑ آیا۔ اس سال ڈاکٹربرنارڈ یونیورسٹی آئے اور انہوں نے دل کی منتقلی کے آپریشن شروع کردیئے۔ ہیملٹن ان کا اسسٹنٹ بن گیا، وہ ڈاکٹر برنارڈ کے کام کو غور سے دیکھتا رہتا، ان آپریشنوں کے دوران وہ اسسٹنٹ سے ایڈیشنل سرجن بن گیا۔
اب ڈاکٹر آپریشن کرتے اور آپریشن کے بعد اسے ٹانکے لگانے کا فریضہ سونپ دیتے، وہ انتہائی شاندار ٹانکے لگاتا تھا، اس کی انگلیوں میں صفائی اور تیزی تھی، اس نے ایک ایک دن میں پچاس پچاس لوگوں کے ٹانکے لگائے۔ وہ آپریشن تھیٹر میں کام کرتے ہوئے سرجنوں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا
چنانچہ بڑے ڈاکٹروں نے اسے جونیئر ڈاکٹروں کو سکھانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ وہ اب جونیئر ڈاکٹروں کو آپریشن کی تکنیکس سکھانے لگا۔وہ آہستہ آہستہ یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت بن گیا۔ وہ میڈیکل سائنس کی اصطلاحات سے ناواقف تھا لیکن وہ دنیا کے بڑے سے بڑے سرجن سے بہترسرجن تھا۔ 1970ءمیں اس کی زندگی میں تیسرا موڑ آیا،
اس سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی تو اس نے آپریشن کے دوران جگر کی ایک ایسی شریان کی نشاندہی کردی جس کی وجہ سے جگر کی منتقلی آسان ہوگئی۔ اس کی اس نشاندہی نے میڈیکل سائنس کے بڑے دماغوں کو حیران کردیا،
آج جب دنیا کے کسی کونے میں کسی شخص کے جگر کا آپریشن ہوتا ہے اور مریض آنکھ کھول کر روشنی کو دیکھتا ہے تو اس کامیاب آپریشن کا ثواب براہ راست ہیملٹن کو چلا جاتا ہے،اس کا محسن ہیملٹن ہوتا ہے“ ہیملٹن نے یہ مقام اخلاص اور استقامت سے حاصل کیا۔ وہ 50 برس کیپ ٹاﺅن یونیورسٹی سے وابستہ رہا،
ان 50 برسوں میں اس نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ وہ رات تین بجے گھر سے نکلتا تھا، 14 میل پیدل چلتا ہوا یونیورسٹی پہنچتا اور ٹھیک چھ بجے تھیٹر میں داخل ہو جاتا۔ لوگ اس کی آمدورفت سے اپنی گھڑیاں ٹھیک کرتے تھے، ان پچاس برسوں میں اس نے کبھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا،
اس نے کبھی اوقات کار کی طوالت اور سہولتوں میں کمی کا شکوہ نہیں کیا لہٰذا پھر اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت آیا جب اس کی تنخواہ اور مراعات یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے زیادہ تھیں اور اسے وہ اعزاز ملا جو آج تک میڈیکل سائنس کے کسی شخص کو نہیں ملا۔
وہ میڈیکل ہسٹری کا پہلا ان پڑھ استاد تھا۔ وہ پہلا ان پڑھ سرجن تھا جس نے زندگی میں تیس ہزار سرجنوں کو ٹریننگ دی، وہ 2005ءمیں فوت ہوا تو اسے یونیورسٹی میں دفن کیا گیا
اور اس کے بعد یونیورسٹی سے پاس آﺅٹ ہونے والے سرجنوں کے لیے لازم قرار دے دیا گیا وہ ڈگری لینے کے بعد اس کی قبر پر جائیں، تصویر بنوائیں اور اس کے بعد عملی زندگی میں داخل ہو جائیں ۔
Comments
Post a Comment