کل نفس ذائقة الموت....ہر زندہ چیز کا مقدر موت ہے-
کل نفس ذائقة الموت....ہر زندہ چیز کا مقدر موت ہے-
One day, every one has to die..........!
ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگنے سے 48کروڑ جانور جل کر بھسم ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ شیئر کرتے رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نمازِ استسقاء ادا کرنے کے نتیجے میں وہاں بارش ہوئی- جبکہ سیکولر حضرات اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس بات پر ان کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔
لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ دنیا میں اتنی تکلیف کیوں ہے؟ اگر اس بات پر غور کیا جاۓ تو اس دوران انسان پر بڑے عجیب انکشافات ہوتے ہیں۔
سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ زندہ چیزیں اور تکلیف یا درد لازم و ملزوم ہے۔ فرض کریں کہ یہ جانور آگ سے نہ مرتے ‘ پھر کیا ہوتا؟ ظاہر ہے, ایک دن وہ بوڑھے اور بیمار ہو کر مرتے, آخر مرنا بھی تو ایک مقدر ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑھاپا ہماری زندگیوں میں اپنی جگہ ایک بہت بڑی misery, create کرتا ہے جو کہ انسان کو زندگی سے محظوظ ہونے یا لطف اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ بیس سال کی عمر میں جو شخص دو دو سیڑھیاں پھلانگتا چلا جاتا ہے پھر وہی نوّے برس کی عمر میں ایک ایک زینہ رک رک کر طے کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو جاندار بھی پیدا ہوا, اس نے موت کا مزہ تو بہرحال چکھنا ہی ہے۔ چاہے‘ وہ حادثے کی صورت میں ہو یا بڑھاپے اور بیماری کی صورت میں۔
ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہر جاندار کے جسم میں نروز(nerves) کی صورت میں ایسی تاریں بچھائی گئی ہیں کہ جن سے جسم کے کسی بھی حصے کو نقصان پہنچنے کے نتیجے میں وہ جاندار درد محسوس کرتا ہے۔ اس درد ہی کے نتیجے میں‘ وہ اپنی جان بچانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ جیسا کہ ناصر افتخار نے اپنی کتاب ''خود سے خدا تک ‘‘ میں لکھا ہے کہ لوگ اپنی آنتیں اپنی ہاتھوں سے اپنی گردن میں لٹکا لیتے اگر درد نہ ہوتا- لوگ شوقیہ اور تجسس کی وجہ سے خود کشی کر لیتے کہ دیکھیں تو سہی‘ مرتا ھوا انسان بھلا کیا محسوس کرتا ہے۔ یہ درد ہی ہے ‘ جو انسان کو زندہ رہنے کی جدوجہد پر اکساتا ہے۔ ہم کسی کے جسم میں ان تاروں(nerves) کو منقطع کر دیں‘ پھر چاہے‘ اس کے جسم کو آرے سے دوٹکڑے کر دیا جائے‘ اسے محسوس بھی نہیں ہو گا۔ انسان اس کام میں اتنی مہارت حاصل کر چکا ہے کہ وہ ریڑھ کی ہڈی میں سے درد کی ترسیل روک دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپریشن تھیٹر میں پڑا ہوا مریض اپنے جسم کی چیر پھاڑ تو کروا لیتا ہے لیکن درد محسوس نہیں کرتا-
ہم سبکو آسٹریلیا کے 48کروڑ جانوروں پہ ترس تو آرہا ہو گا اور آنا بھی چاہیے‘ لیکن انجام تو ہمارا بھی یہی ہے یعنی موت۔ ایک دن ہم سب کو بھی مر جانا ہے, کسی نے بھی ہمیشہ نہیں رہنا۔ ویسے بھی انسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجود موت کا تو کوئی علاج ڈھونڈ نہیں سکا........ بہتر ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ جب ہم مر رہے ہوں گے‘ تو کس قدر قابلِ رحم ہوں گے؟ اپنے تمام اہل و عیال اور possessions سے جدائی کا تصور انسان کو لرزا کر رکھ دیتا ہے۔
ہر جاندار کو اپنی زندگی میں ایک خاص مقدار میں تکلیف سے گزرنا ہے۔ انسان چاہے باکسر محمد علی کی طرح ارب پتی ہی کیوں نہ ہو جاۓ‘ اسے اس تکلیف سے لازماً گزرنا پڑے گا۔ پتے اور گردے میں‘ اگر پتھری اپنی جگہ سے حرکت کر رہی ہو یا سانس کے راستے میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہو تو جاندار کو تکلیف سے بہرحال گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی دولت, اس کے ماں باپ اور بیوی بچّے اسے اس تکلیف سے بچا نہیں سکتے۔ گو کہ انسان نے pain killers ایجاد کر کے اور ریڑھ کی ہڈی میں سے درد کی ترسیل روکنے کی سائنس سمجھ کر بہت بڑے ریلیف کا شارٹ کٹ دریافت کر لیا ہے۔ بے شمار لوگ ہیں ‘ جو ساری زندگی pain management پہ گزارتے ہیں اور حتی الامکان تکلیف سے بچے رہتے ہیں۔
لیکن پھر بھی تکلیف سے تو گزرنا ہی پڑتا ہے خواہ آپ دولت مند ہی کیوں نہ ہوں۔
سونے کی تجارت کرنے والے ایک شخص کے گردے ناکارہ ہو گئے تھے۔ اس نے گردہ ٹرانسپلانٹ کرایا۔ ٹرانسپلانٹ کرانے کے بعد امیون سسٹم کو کمزور کرنے والی ادویات دی جاتی ہیں‘ تاکہ جسم باہر سے آئے ہوئے اس عضو کو مسترد نہ کرے۔ امیون سسٹم کمزور ہونے کے نتیجے میں وہ کئی سال مسلسل بیمار رہا۔ یہی سب ایک وکیل کے ساتھ ہوا‘ جو بھارت سے جگر ٹرانسپلانٹ کروانے کے بعد اپنی موت تک شدید بیماریوں کا شکار رہا یعنی دولت ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی-
جب ایک جاندار دنیا میں اپنے حصے کا رزق کھا چکا ہو اور وہ موت والی جگہ یا stage پر آ جائے تو پھر موت کا درد شروع ہو جاتا ہے چاہے وہ جتنا بھی صحت مند وتندرست ہی کیوں نہ ہو لیکن موت کے وقت موت کی تکلیف سے گذرنا پڑتا ہے۔ قرآن میں لکھا ہے کہ زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں ‘ جس کا رزق خدا کے ذمے نہ ہو اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں ٹہرے گا اور کہاں سونپا جائے گا..........کیا کبھی کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ معمر قذافی ایک سڑک پر تشدد سے ہلاک ہوگا ؟
یہ جو کچھ بیان ہوا ہے ‘ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک مخلوق کی ہلاکت دوسری مخلوق کے فائدے کا سبب بھی بنتی ہے۔ آج ہم جو کوئلہ‘ تیل اور گیس استعمال کررہے ہیں ‘ یہ کروڑوں سال پہلے جنگلات اور جانداروں کے زمین میں دفن ہونے سے وجود میں آئے تھے ‘ اسی طرح جب ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ڈائناسار ایک بہت بڑے حادثے(مبینہ طور پر ایک دم دار ستارے کے زمین پر گرنے سے) میں ختم ہوئے تو میملز کا سنہری دور شروع ہوا۔ اس کے بعد میملز پورے کرّہ ارض میں پھیلتے چلے گئے۔ اگر ہم تاریخ کے بڑے حادثات دیکھیں ‘ جیسا کہ ڈائناسارز والے عہد میں دم دار ستارے کا گرنا یا آئس ایجز کو دیکھیں تو ہمیں آسٹریلیا کی یہ آگ ناقابلِ ذکر محسوس ہوگی۔ ڈائنا سارز والے حادثے میں کرّہ ء ارض کی ستر فیصد سپیشیز ہی ختم ہو گئی تھیں۔ اس وقت کا ماحول اگر ہم دیکھ لیتے تو قسم اٹھا کر کہتے کہ اس زمین پر آئندہ کوئی جاندار جنم نہ لے سکے گا لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیسے یہ سیارہ زندگی سے لبریز وبھرپور ہے۔
اس میں کوئ شک نہیں کہ کسی کو مرتے ہوئے دیکھیں تو ترس تو بہت آتا ہے لیکن دنیا میں کیا کوئی ایسا جاندار بھی ہے ‘ جسے نہ مرنا ہو ؟ اور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے جن بچوں کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں‘ انہیں بھی تو ایک دن مرجانا ہے۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی متوقع موت کا صدمہ انسان کو نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہی نہ چھوڑے- اس کے باوجود انسان کس طرح اس خوفناک حادثے سے کنی کتراتے ہوئے پوری زندگی گزار دیتا ہے۔ انسان کس طرح غم سے نظریں چراتے ہوئے دنیا میں خوشی کشید کرنے کی کوشش کرتا ہے ‘ اسے آپ پالتو جانور پالنے کے عمل میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ بلی ‘ کتے اور دوسرے جانوروں کا میٹابولزم ہم سے کہیں تیز ہوتا ہے۔ انسان جو جانور گھر میں پالتا ہے ‘ اس نے یقیناً دس بارہ سال کے عرصے میں مر جانا ہوتا ہے- اس کے باوجود انسان ایک جانور پالتا ہے ‘ اس سے محبت کرتا ہے اور پھر اس کی بیماری اور موت سے آزردہ ہوتا ہے حالانکہ انسان کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔
وہ ذاتِ قدیم فرماتی ہے : کل من علیہا فان ۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہے ‘ سب فنا ہو جانے والا ہے ۔ اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ ‘ عظمت اور بزرگی والا۔
معاملات سارے کے سارے خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں آج جو کچھ ہو رہا ہے ‘ اس سے کہیں بڑے واقعات سے کرّہ ارض کی تاریخ بھری پڑی ہے- آگ بجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور جانوروں کی جان بچانے کی بھی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دو عالمی جنگوں میں اپنے جیسے دس کروڑ انسانوں کا خون بہانے والا آدمی ‘خدا نہیں بن سکتا۔ انسان اگر دُور اندیش ہو تو ہر مرنے والے جاندار میں اسے اپنا آپ نظر آنا چاہیے اور ایسے ہر واقعہ سے سبق سیکھنا چاہیے۔
Thanks for Professor Ahmed Rafiq Akhtar & Bilal-ur-Rashid
Edited by Muhammad Nadeem Saleem
Comments
Post a Comment