انسولین کی ایجاد
(انسولین کی ایجاد) **
27 جولائی 1921ء میں انسولین کی ایجاد ہوئی۔ پہلے زمانے میں ذیابیطس کا علاج میسر نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا لوگ کم عمری میں ہی فوت ہو جاتے تھے۔
ذیابیطس کوئی نئی بیماری نہیں بلکہ دنیا میں صدیوں سے موجود ہے۔ انڈیا اور چین کی ہزاروں سال پرانی کتابوں میں ذیابیطس کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ ذیابیطس کا پرانا ترین کیس مصر میں ملتا ہے۔ 1550 قبل مسیح میں مصری ڈاکٹر ہیسی را نے ایک مریض کا لکھا ہوا ریکارڈ چھوڑا، جس میں مریض کو بار بار پیشاب آنے کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر کو یہ تو نہیں معلوم تھا کہ یہ کیا بیماری ہے، لیکن انہوں نے مریض کو ایک خاص خوراک کھانے کا مشورہ دیا۔ اس خوراک میں پھل، اناج اور شہد شامل تھے۔ اس غذا سے مریض کو کچھ فائدہ تو ہوا، لیکن اس کی بیماری دور نہیں ہوئی۔ کچھ دوسرے ڈاکٹروں نے اس مریض کو بیر، کھیرے کے پھول اور تالاب کے پانی سے علاج کرنے کا مشورہ دیا۔ سسروتا جن کو انڈیا میں طب کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے، نے 422 قبل مسیح میں ایک بیماری تشخیص کی، جس کو بعد میں ذیابیطس کہا گیا۔ قدیم ہندوستانی طبیب چرکا نے مدھو میہا یا شہد والا پیشاب آنے والی بیماری کا ذکر کیا۔ اس زمانے میں طبیب چونٹیاں یا کیڑے بھی ذیابیطس کی بیماری کو تشخیص کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ میٹھا پیشاب چونٹیوں اور کیڑوں کو اپنی طرف راغب کرتا تھا اور اس طرح ذیابیطس تشخیص کی جاتی تھی۔ سسروتا اور چرکا پہلے طبیب تھے، جنہوں نے پہلی اور دوسری قسم کی ذیابیطس میں فرق پہچانا۔ انہوں نے اس بات کو نوٹ کیا کہ پہلی قسم کی ذیابیطس کے مریض کم عمر اور دبلے ہوتے تھے اور دوسری قسم کے مریض وزن میں زیادہ ہوتے تھے اور نسبتاًزیادہ عرصے تک زندہ رہتے تھے۔ 130 بعد مسیح میں یونانی طبیب گیلن نے جن کی پریکٹس روم میں تھی اور ایریٹس جن کا تعلق کپاڈوکیا سے تھا، نے ذیابیطس کے بارے میں مزید تفصیلات بیان کیں۔ ایریٹس نے ذیابیطس کو سائفن یعنی کہ پائپ سے تشبیہ دی کیونکہ ان مریضوں کو بار بار پیشاب آنے کی شکایت ہوتی ہے۔ 1425ء میں لفظ ذیابیطس پہلی مرتبہ انگریزی میں لکھا گیا۔ 1675ء میں انگریز ڈاکٹر تھامس ولس نے اس میں لفظ ’ملائی ٹس‘ کا اضافہ کیا، جس کا لاطینی میں لفظی مطلب شہد ہے۔ 1900ء میں جانوروں پر کی گئی ریسرچ سے معلوم ہوا کہ لبلبہ نکال دینے سے ان کو ذیابیطس ہوگئی۔فریڈرک بینٹنگ اور ان کے اسسٹنٹ چارلس بیسٹ نے یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں پروفیسر جے جے آر میکلاؤڈ کی لیبارٹری میں کتوں کے لبلبے سے انسولین نکالی اور اس کے ٹیکے ان کتوں کو لگائے ،جن کے لبلبے نکال دئیے گئے تھے ،تو ان کی شوگر کم ہوگئی۔ جیمز کالپ نے اس انسولین کو خالص بنایا تاکہ وہ انسانوں میں استعمال کی جاسکے۔ بینٹنگ اور مکلاؤڈ کو 1923ء میں فزیالوجی اور میڈیسن میں نوبل پرائز دیا گیا۔ ان چاروں افراد کو اس دریافت پران کی خدمات کے لیے سراہا گیا۔1922ء میں پہلے ذیابیطس کے مریض کا انسولین کے ٹیکے سے علاج کیا گیا۔ 1942 ء میں پہلی منہ سے لی جانے والی ذیابیطس کی دوا ایجاد ہوئی۔ پرانے زمانے میں لوگ ذیابیطس کو گوشت گھلانے والی بیماری کے نام سے پکارتے تھے۔ جیسا کہ آپ ذیابیطس کی تاریخ سے اندازہ لگا سکتے ہیں ،بیسویں صدی تک ذیابیطس کا کوئی ٹھوس علاج دریافت نہیں ہوا تھا۔
انسولین نے بہت سی جانیں بچائی ہیں۔ شروع میں انسولین شیشے کی سرنج اور بڑی سوئیوں کے ذریعے دی جاتی تھی، لیکن اب اس کی نہایت باریک ایک دفعہ استعمال کی جانے والی سوئیاں دستیاب ہیں ،جن کی وجہ سے مریضوں کو انسولین لینے میں آسانی ہوگئی ہے۔ ذیابیطس صرف ایک بیماری نہیں بلکہ کئی بیماریوں کا مجموعہ ہے، جس میں جسم میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ابتدائی سطح میں علامات کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے کئی مریض برو قت علاج شروع نہیں کرتے۔ کئی مریض ذیابیطس کی تشخیص ہو جانے کے بعد بھی دوا کا استعمال نہیں کرتے۔ ان کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ اگر دوا کھانا شروع کر دی، تو بیماری بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ ذیابیطس کا علاج نہایت اہم ہے کیونکہ خون میں گلوکوز کو نارمل رکھنے سے ذیابیطس کی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان عام ہے کہ جب تک لوگ سخت بیمار نہ پڑ جائیں ،ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے۔ اگر کوئی تکلیف نہ بھی ہو، تو سال میں ایک دفعہ مکمل جسمانی معائنہ کروانا چاہیے کیونکہ شروع میں ذیابیطس کی کوئی علامات نہیں ہوتیں،جس طرح انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، بالکل اسی طرح ذیابیطس کے مریض ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ذیابیطس کی پیچیدگیوں میں دل کے دورے، فالج، اندھا پن ،گردوں کا فیل ہو جانا، نسوں کی بیماری، پیروں میں ناسور، جو اکثر پیر کٹنے کا باعث بنتے ہیں شامل ہیں۔ ذیابیطس پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 300 ملین سے تجاوز کرگئی ہے، جس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ انسان کے زندگی گزرنے کے طور طریقے تبدیل ہو رہے ہیں۔ قدیم زما نے کا انسان پھل جمع کرکے، جانوروں کا شکار کرکے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ کاشت کاری کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔ جدید دور کے انسانوں کے پاس غذا کی فراوانی اور جسمانی مشقت سے بچانے والی مشینوںاور سواریوں کے موجود ہونے سے نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ذیابیطس اور موٹاپا ان مسائل میں شامل ہیں۔ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور چین ان ممالک میں شامل ہیں، جن میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ نیو یارک میں کی گئی ریسرچ کے مطابق جنوب ایشائی افراد میں ذیابیطس کا خطرہ دیگر افراد سے زیادہ پایا گیا ہے۔
Comments
Post a Comment