چکر اور الٹیاں کیوں آتی ہیں

والیم نمبر. 26
سوال و جواب ............. سائنس کی دنیا

سوال ۔1 کچھ لوگوں کو چلتے چلتے چکر آتے ہے اور کچھ کو گاڑیوں میں سفر کے دوران الٹیاں کیوں آتی ہیں ؟

جواب سفر کرتے وقت چکر آنے یا الٹیاں آنے کی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ سفر کے دوران دماغ کے جسم کے مختلف حصوں سے متضاد معلومات مل رہی ہوتی ہیں - جب آپ پیدل چلتے ہیں تو آپ کی آنکھیں، ٹانگیں، پاؤں، بازو، اور اپ کے کانوں کے اندر موجود بیلینسنگ کا نظام سب دماغ کو یہ انفارمیشن دیتے ہیں کہ آپ حرکت میں ہیں - اس کے برعکس اگر آپ بس میں سفر کر رہے ہوں تو آپ کے کانوں کے اندر موجود بیلنسنگ کا نظام دماغ کو یہ بتلا رہا ہوتا ہے کہ آپ حرکت میں ہیں تاہم آپ کی آنکھیں بس کے اندر ہر چیز کو ساکن دیکھتی ہیں، آپ کا جسم دماغ کو یہ بتلاتا ہے کہ آپ ایک سیٹ پر بیٹھے ہیں (یعنی ساکن ہیں) - اس طرح کے متضاد سگنلز سے دماغ غالباً کنفوز ہوجاتا ہے اور معدے کو الٹی سیدھی ہدایات بھیجنے لگتا ہے

آپ کو چکر اور وومٹنگ صرف اس وقت آتے ہیں جب آپ تیزی سے تبدیل ہوتے منظر پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ گاڑی کے پردے بند رکھیں اور باہر کے منظر پر توجہ نہ دیں تو چکر آئیں گے اور نہ ہی وومٹنگ۔
اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کا ریٹینا اور دماغ اتنی تیزی کے ساتھ امیج کو پراسیس نہیں کر پاتے اور جب آپ ذہن پر زور ڈالتے ہیں یعنی کہ اپنے دماغ کو آپٹیمم لیول سے زیادہ پر لیجانے کی کوشش کرتے ہیں تو دماغ اپنی صلاحیت سے آگے کام کرنے سے انکار کی صورت میں آپ کا سر چکرا دیتا ہے اور آپ الٹی کرنے لگ جاتے ہیں۔ تحریر قدیر قریشی

سوال 2 ...اگر میں ایک کتاب کسی جگہ رکھ دوں اور وہاں سے چلا جاؤں تو کیا اس کا وجود وہاں نہ ہو گا؟ 
یعنی حقیقت کو ہم کس اینگل سے دیکھتے ہیں ڈبل سلٹ ایکسپیریمنٹ کو سامنے رکھا جائے؟

جواب اس سوال کا ڈبل سلٹ تجربے سے کوئی تعلق نہیں - یہ درست ہے کہ اگر ہم کتاب کہیں رکھ کر خود کہیں اور چلے جائیں تو 'ہمیں' معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کتاب وہیں موجود ہے یا نہیں - لیکن سائنس کی بدولت ہم اب معروضی حقیقت کو کافی حد تک سمجھ چکے ہیں - بڑے اجسام کن قوتوں کے تحت حرکت کرتے ہیں اور اگر کسی جسم پر کوئی قوت نہ ہو تو اس کا کیا اثر ہوتا ہے یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں - اس کتاب پر کون کون سی قوتیں اثر انداز ہو سکتی ہیں یہ بھی سمجھتے ہیں - چنانچہ اب فلسفے کے بجائے اس سوال کا جواب سائنس کی رو سے دیا جاسکتا ہے کہ اس بات کا امکان انتہائی زیادہ (یعنی تقریباً سو فیصد) ہے کہ اگر اس کتاب پر کوئی اضافی قوت نہ لگائی جائے تو وہ کتاب ہماری عدم موجودگی میں بھی وہیں رہے گی - ایسے سوالوں میں کوانٹم فزکس کا ذکر صرف ہماری سوچ کو کنفیوز کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ورنہ ڈبل سلٹ تجربے کا تعلم کوانٹم ذرات کی decoherence سے ہے جو بڑے اجسام سے تعامل کی صورت میں ہوتی ہے - ڈبل سلٹ تجربے کا انسانی یا آفاقی شعور سے کوئی تعلق نہیں
تحریر قدیر قریشی

سوال ۔3 بگ بنگ کے بعد ستارے اور سولر سسٹم کیسے بنے ؟
جواب بگ بینگ کے بعد جب کائنات کچھ ٹھنڈی ہی اور بنیادی ذرات مل کر ایٹم بنانے لگے تو جہاں جہاں ڈینسٹی زیادہ تھی وہاں ستاروں نے جنم لیا .(اس کی تفصیل کیلئے میں لنک دیتا ہوں )
جب ستاروں کی موت واقع ہوئی تو اس سے مادہ ایک دفعہ پھر خلاء میں بکھر گیا لیکن اس دفعہ اس میں ہائیڈروجن کے علاوہ دوسرے عناصر بھی تھے .جب دوبارہ کبھی سپیس میں ہلچل ہوئی تو جہاں ڈینسٹی زیادہ تھی وہاں گیسوں کے بادلوں نے کشش ثقل کے باعث سکڑنا شروع کیا اور بہت سے ستارے بنے جن میں سے ایک ہمارا سورج بھی ہے .جب مادہ ایک جگہ اکٹھا ہوتا ہے تو اس کی کشش ثقل مزید بڑھ جاتی ہے نتیجتا وہ اور مادہ کھینچتا ہے .جو مادہ نے بننے والے پروٹو ستارہ کا رخ کرتا ہے وہ سیدھی لائن میں جانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ کشش ثقل اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے نتیجتا وہ مادہ نے بننے والے ستارے کے گرد گردش شروع کر دیتا ہے .یہ مادہ دھول گیس پانی اور دیگر گیسوں پر مشتمل ہوتا ہے .جب ستارہ اتنا ماس حاصل کر لیتا ہے کہ فیوژن کا عمل شروع کر سکے تو وہ فیوژن شروع کرتا ہے جس کے نتیجے می بہت زیادہ حرارت اور گیس کے جھکڑ نکلتے ہیں .یہ حرارت اکریشن ڈسک (وہ ڈسک جو ستارے کے گرد گھومتی ہے )میں موجود پانی کو vaporize کر دیتی ہے اور سولر ونڈز (چارجڈ پارٹیکلز کے جھکڑ )انہیں دور دھکیل دیتے ہیں وہ مقام جہاں پانی دوبارہ condense ہوتا ہے اسے ہم سنو لائن کہتے ہیں .پیچھے جو پتھر بچتے ہیں ڈسک میں وہ بھی سولر ونڈز کی وجہ سے کچھ دور ہو جاتے ہیں .یہ سوکھے پتھر ہوتے ہیں جو بعد میں کشش ثقل کے زیر اثر مل کر سیارہ  تشکیل دیتے ہیں
ہمارے سولر سسٹم میں سنو لائین مارس اور جوپیٹر کے درمیان واقع ہے .جو سوکھے پتھر پیچھے بچے تھے ان سے مرکری وینس ارتھ اور مارس تشکیل پاے اس کے آگے سنو لائن ہے اور پھر گیس giant سیارے ہیں
تحریر    ابوبکر

سوال 4 .بچے مٹی کیوں کھاتے ہیں؟
اگر منرلز حاصل کرنے لئے جو کہ میں نے اکثر پڑھا بچوں کے جسم کو منرل کمی کا سامنا ہوتو مٹی کھاتے ہیں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے بچوں کے ذہن میں یہ کیسے آیا کی مٹی میں منرلز ہوتے ہیں؟

جواب جیسے ہی بچہ خود ادھر ادھر گھومنے کے قابل ہوتا ہے وہ اپنے سروائیول کی کوشش شروع کردیتا ہے۔ ہر وہ چیز جو خوشبو یا شکل کی بنیاد پہ اسے کھانے کی لگتی ہے وہ کھاتا ہے۔ جس کا ذائقہ اچھا لگے وہ بار بار کھاتا ہے۔ اگر ہم اس اسٹیج کو فرائڈ کے نظریے کے حساب سے دیکھیں تو اس عمر میں اس کی ساری تفریح ہی منہ سے متعلق ہے تو ہر چیز منہ میں ڈالنا یا چوسنا نوزائیدہ بچوں کا مشغلہ ہوتا ہے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے یہ عادت خود ہی ختم ہوجاتی ہے صرف ان بچوں کے علاوہ جن کو کسی قسم کی ڈیفی شینسی ہو یا کسی قسم کا ذہنی عارضہ ہو۔
مٹی میں کئی ایسے منرل ہوتے ہیں جو فائدہ مند ہوتے ہیں اور ہماری قدرتی سونگھنے کی حس ہمارے لاشعور کو بتاتی ہے کہ ہماری جسمانی کمی کس خوشبو کی حامل چیز سے پوری ہوگی۔ مگر ہمارا رہن سہن ایسا ہے جس میں بچوں کو مٹی سے دور رکھا جاتا ہے اور وہ اپنی عادت سے مجبور مٹی کھا لیں تو فائدہ مند منرلز کے فائدہ کرنے سے پہلے کئی قسم کی الرجیز ہوجاتی ہیں جن کے لیے بچے کا جسم تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کو ایک متوازن اور صحت مند ماحول دینے کے لیے والدین کو خود اس حوالے سے اچھہ خاصی معلومات ہونی چاہیے ورنہ یا تو وہ بچے کو شدید صاف جگہ پہ رکھیں گے یا شدید گندی کیونکہ کس حد تک بچے کو کھلے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ میں اس کی غذا کیسی ہونی چاہیے اس کی معلومات ہونا بہت ضروری ہے۔
تحریر ابصار فاطمہ

سوال ۔5 گرمیوں میں ائرکنڈیشنڈکےعلاوہ کوئی ایساطریقہ بھی ھےجس سےکم ازکمرےکادرجہ حرارت اتناکم ھوجائےکہ ٹھنڈپیدانہ ھومگرگرمی بھی نہ لگےپلیزاگر کسی کومعلوم ھوتوضرورشئیرکریں

جواب کئی کام کرسکتے ہیں جن سے گرمی کی شدت میں واضع کمی آئے گی۔

۱۔ گھر کی چھت ، جنوبی دیوار اور مغربی دیوار پر سفید چمکدار پینٹ کریں۔ اس سے سورج کی حرارت کا بیشتر حصہ منعکس ہوجائے گا اور کافی فرق پڑے گا۔
۲۔ اگر گھر کے اردگرد کچی جگہ وافر ہے ، تو گھر کے جنوب اور مغرب کی طرف درخت لگائیں۔ اگر جگہ وافر نہیں تو بیلیں لگائیں اور انہیں دیوار پر چڑھا دیں۔ سبزہ گرمی کی شدت کو کافی کم کرتا ہے۔
۳۔ اپنے علاقے میں ہوا کا رخ معلوم کریں اور گھر میں تازہ ہوا گزرنے کا انتظام کریں۔ اس کے لیے مناسب سمت میں کھڑکیاں اور روشن دان لگائیں۔ کراچی میں ہوا ہمیشہ مغرب کی جانب سے آتی ہے ، اگر کراچی میں رہتے ہیں تو ہوا کے گزرنے کے لیے مغرب سے مشرق کا ایسا راستہ بنائیں جس سے ہوا تمام کمروں سے گزر سکے۔
۴۔ اگر گھر کی چھت زیر استعمال نہیں تو اس پر ایک انچ موٹا سٹائروفوم ڈال دیں ، آپ کی چھت بہت کم گرم ہوگی۔
۵۔ زیر زمین کمرہ تعمیر کرلیں۔ زیر زمین درجہ حرارت سارا سال تقریباً یکساں رہتا ہے۔ اسلیے یہ کمرہ گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رہے گا۔ 
تحریر کاشیف عقیل

سوال 6.. کیا دوبارہ  بگ بنگ واقع ہوسکتا ہے، اگر ہوا تو اس سے ہماری کائنات کا کیا ہوگا؟
اگر نہیں! تو کیا اس کیلئے خاص سرکمسٹانسز کی ضرورت ہوتی ہے؟
وہ سرکمسٹانسز کیا ہیں؟

ہمیں فی الوقت یہ معلوم نہیں ہے کہ بگ بینگ کیوں ہوا - لیکن اکثر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بگ بینگ کے لیے جس ویکیوم کی ضرورت ہے وہ اس وقت کائنات میں موجود نہیں ہے - کائنات کا اوسط درجہِ حرارت 2.7 کیلون ہے یعنی کائنات میں ہر جگہ پر کچھ توانائی موجود ہے - اب سے کھربوں سال بعد ممکن ہے کہ کائنات میں توانائی کی کثافت اتنی کم ہوجائے کہ وہ کوانٹم فلکچویشنز ممکن ہوں جس کی وجہ سے بگ بینگ ہوا - تاہم چونکہ ہمیں بگ بینگ کے محرکات کا علم نہیں ہے اس لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ دوبارہ سپیس کا ویسا پھیلاؤ ممکن ہے یا نہیں جیسا بگ بینگ کے فوراً بعد ہوا - اب سے کچھ دہائی پہلے تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کم ہورہی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ کائنات کا پھیلاؤ رک جائے گا - اس کے بعد کائنات کی تمام کششِ ثقل اسے سکڑنے پر مجبور کردے گی اور یوں ایک big crunch ہوگا جس میں تمام کائنات ایک نقطے میں معدوم ہوجائے گی - اس کے بعد یہی توانائی پھر سے بگ بینگ پیدا کرے گی - لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ کائنات کے پھیلاؤ کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے بگ کرنچ کا کوئی امکان نہیں
تحریر قدیر قریشی

سوال 7 ..کیا ڈی این اے میں تبدیلی لا کر اُڑنے والا انسان بنایا جا سکتا ہے ؟

جواب جینیات کا موجودہ علم اور جینیاتی ٹیکنالوجی دونوں ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ ایسا کچھ کیا جاسکے - ویسے بھی انسان کی اڑنے کی خواہش اکیسویں صدی میں کچھ بچگانہ سی معلوم ہوتی ہے - سائنس دان عموماً عملی سوچ رکھتے ہیں اور جینیات کو بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرنے پر زیادہ ریسرچ کر رہے ہیں - انسان کا اڑنا اتنا اہم نہیں جتنا کینسر، ہارٹ اٹیک، سٹروک، وغیرہ کا علاج دریافت کرنا
تحریر قدیر قریشی

سوال ۔8 ایک ڈاکیومنٹری میں کہا گیا 2067 کو دنیا میں آکسیجن ختم ہوجائیں گا کیا ایسا ہوگا ؟
انوائرمینٹل اسپیشلسٹس کے مطابق دنیا کے تمام دہشتگرودوں کی ساری کاروائیاں ایک طرف اور آلودگی کا نقصان ایک طرف جو باقی تمام تباہ کن کاموں سے کئی گناہ تباہ کن ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تباہ کن ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ممالک میں ہوا کو صاف کرنے، فوسل فیول کا متبادل استعمال کرنے اور پلاسٹک بیگز کی جگہ قدرتی مٹیریل سے بنی ڈسپوز ایبل اشیاء بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مگر اس کاتناسب بڑھتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے کہیں کم ہے۔ بہر حال ان کا کام اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پچھلے چند سالوں میں اسموگ نے جس طرح عفریت کا روپ اختیار کیا ہے بہت سے ممالک کو ہنگامی حالات میں آلودگی سے نپٹنے کی کوششیں شروع کرنی پڑ رہی ہیں۔ جن میں انڈیا میں دہلی اور پاکستان میں لاہور کی مثال سامنے ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیز کو اپنا بزنس چمکانے کا اہم موقع مل گیا اور اب ہر اہم کمپنی پودے لگانے کا اشتہار چلا رہی ہے۔ مگر اہم سمجھنے والی بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ آلودگی فیکٹریز سے نکلنے والے دھوئیں سے ہو رہی ہے اور جو واقعی آلودگی کے حوالے سے سنجیدہ ہیں انہیں سب سے پہلے اپنے پروڈکشن پلانٹس بند کرنے چاہیں اور اگر نہیں کیے تو باقی سب اپنی یپروڈکٹ بیچنے کا ڈرامہ ہے۔ ہمارے ناردرن ایریاز کا حال شدید برا ہے یہ وہ موسم ہے جب وہاں بارشیں اور برف باری شروع ہوجاتی ہے مگر اب وہاں جا کر دیکھیں تو خالی خولی پہاڑیاں زیادہ دیکھنے میں آرہی ہیں۔ ڈی فوریسٹیشن انتہائی تیزی سے ہورہی ہے۔ یہ تب تک کم ہونا شروع نہیں ہوگا جب ہر بندہ فردا فردا ہر آلودگی بڑھانے والے اشیاء کا استعمال روکے گا نہیں۔ پلاسٹک کے تھیلے، باتھ روم کلینر، گاڑیوں کا بے دریغ استعمال، پیکٹ پراڈکٹ کا استعمال، الیکٹرانکس ان سب کا استعمال اگر ہم فوری طور پہ ختم نہین کرسکتے تو بھی ہمیں انتہائی حدوں تک کم کرنا ہوگا۔
تحریر ابصار فاطمہ

سوال 9 گرویٹیشنل ویوز کا اثر سپئیس پر ہوتا ہے تو ٹائم پر بھی ہوتا ہے یا نہیں تو میرے ذہن میں یہ آرہا ہے کہ جب ٹائم اور سپیس باہم جڑے ہیں تو اثر دونوں پر ہونا چاہئے نا ؟

سپیس میں حرکت سے وقت کی رفتار سست پڑ جاتی ہے - لیکن ثقلی لہروں کی صورت میں کوئ جسم سپیس میں حرکت نہیں کرتا بلکہ خود سپیس میں ہلچل پیدا ہوتی ہے - اس کے علاوہ ثقلی لہروں سے ہونے والی ہلچل سے سپیس کے زیر و بم کی مقدار ایک پروٹان کی جسامت سے بھی لاکھوں گنا کم ہوتی ہے - اتنی کم سپیس میں اگر کوئی جسم حرکت کر بھی رہا ہو تو کسی آبزرور کے لیے اس کے وقت کی رفتار میں کمی کی شرح میں کم وبیش کو جانچنا ممکن نہیں ہوگا
ثقلی لہروں کا وقت پر کوئی اثر نہیں ہوتا اس لیے کہ ثقلی لہروں کا اوسط (mean) صفر ہوتا ہے - کسی دور دراز واقعہ سے پیدا ہونے والی ثقلی لہریں زمین پر پہنچتے پہنچے اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان سے سپیس میں بھی انتہائی معمولی تبدیلی آتی ہے - اس سے وقت میں تبدیلی نہیں ہوتی یعنی ان کا وقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا
تحریر قدیر قریشی

سوال 10  کیا چیز روشنی کو اپنی رفتار مخصوص رکھنے پر مجبور کرتی ہے یا
الیکٹرو میگنیٹک ویو یا روشنی کے فوٹان مخصوص رفتار سے ہی سفر کیوں کرتے ہیں

جسے ہم روشنی کی رفتار کہتے ہیں، وہ سپیس ٹائم کی خاصیت ہے اور اس کی جیومیٹری سے نکلتی ہے۔ سپیس ٹائم کی چار ڈائمنشنز ہیں جن میں سے ایک وقت ہے۔ مگر کائنات کی جیومیٹری میں وقت منفرد نہیں اور اسے بھی باقی ڈائمینشنز کی طرح فاصلے میں بدلا جا سکتا ہے۔ جسے ہم روشنی کی رفتار کہتے ہیں، وہ دراصل اس جیومیٹری میں وقت اور فاصلے کی کنورژن کا تناسب ہے۔ کوئی بھی پارٹیکل جو ہگز فیلڈ سے تعامل کر کے سست روی کا شکار نہ ہو، سپیس ٹائم میں وقت کے ساتھ اسی تناسب سے سفر کرے گا۔ تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی نئی کتابوں میں اس رفتار کو ڈائمینشن لیس کانسٹنٹ کے طور پر بتایا جاتا ہے جس کی ویلیو ایک ہے۔
تحریر وہارا

سوال ..11 موسمیات والے پہلے سے ہی موسم کیسے معلوم کرتے ہے؟

جواب موسمیات والوں کے پاس بہت سے جدید آلے ہوتے ہیں جن سے زمین اور ہوا کا درجہِ حرارت، نمی کا تناسب، مختلف مقامات پر ہوا کا دباؤ، زمین سے میلوں اوپر ہوائی کی تندی اور رخ، فضا میں موجود بادلوں کا درجہِ حرارت اور کثافت وغیرہ کی پیمائش کی جاتی ہے - اس کے علاوہ ہر علاقے کا تاریخی ریکارڈ موجود ہوتا ہے جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں ان حالات میں (جو آج ہیں) موسم میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں - اس سب معلومات سے موسم کے پیچیدہ ریاضیاتی ماڈلز بنائے جاتے ہیں جنہیں تیز رفتار کمپیوٹرز پر چلایا جاتا ہے تاکہ اگلے چند دنوں میں موسم کے حال کی پیش گوئی کی جاسکے - ان ماڈلز میں اب انتی accuracy آچکی ہے کہ اب اگلے سات سے دس دن تک کے موسم کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے جب کہ صرف دو دہائیاں پہلے تک تین دن کی پیش گوئی بھی مشکل ہوتی تھی
تحریر قدیر قریشی

سوال ۔12..موت کسے کہتے ہے؟

جب دماغ کے تمام نیورونز مستقل طور پر کام کرنا بند کر دیں تو اسے موت کہا جاتا ہے - تاہم دماغ کے نیورونز کی موت کو ڈیٹیکٹ کرنا مشکل ہے کیونکہ دماغ کی ایکٹیویٹی کو عام طور پر EEG سے ڈیٹیکٹ کیا جاتا ہے جو نیورونز کی فائرنگ  کے مجموعی پیٹرنز کو کھوپڑی پر لگائے گئے سینسرز کی مدد سے ڈیٹیکٹ کرتا ہے - اگر نیورونز زندہ ہیں لیکن کسی وجہ سے فائر نہیں کر رہے تو EEG کچھ ڈیٹیکٹ نہیں کر پائے گا - اسی طرح اگر کچھ نیورونز فائر کر رہے ہیں لیکن EEG کے سینسر اسے ڈیٹیکٹ نہیں کر پارہے تو بھی EEG یہ بتلائے گا کی دماغ مکمل طور پر بند ہوچکا ہے - اس وجہ سے صرف EEG پر ہی بھروسہ نہیں کیا جاتا بلکہ دل کی دھڑکن اور سانس کے چلنے کا بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے - اگر دل کی دھڑکن اور سانس بند ہو اور EEG بھی کوئی برین ایکٹیویٹی نہ دکھائے تو اسے موت تصور کیا جاتا ہے - لیکن اس میں بھی یہ احتمال رہتا ہے کہ اگر EEG غلط نتائج دے رہا ہو یا نیورونز فائر نہ کر رہے ہوں لیکن ابھی زندہ ہوں تو عین ممکن ہے کہ کچھ دیر بعد نیورونز کی فائرنگ دوبارہ شروع ہوجائے اور مریض 'زندہ' ہوجائے - چنانچہ موت کے وقت کا تعین کرنا خاصہ مشکل کام ہے جس میں غلطی کا احتمال بہرحال موجود ہوتا ہے
چنانچہ اگر کوئی ایسا مریض زندہ ہوجائے جسے ڈاکٹرز مردہ قرار دے چکے ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردہ زندہ ہوگیا بلکہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے موت کا اعلان غلط کیا
تحریر قدیر قریشی

سوال ۔۔13. آگ کیا ہے میٹر کی کونسی حالت ہے ؟
آگ اس پراسیس کا نام ہے جس میں کیمیائی تعاملات توانائی پیدا کرتے ہیں - یہ توانائی حرارت اور روشنی کی شکل میں خارج ہوتی ہے - ان کیمیائی تعاملات کے آغاز کے لیے بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو حرارت کی شکل میں فراہم کی جاتی ہے - جب آپ ماچس جلاتے ہیں تو رگڑ کی توانائی سے حرارت پیدا کرتے ہیں جس سے ماچس کی تیلی جل اٹھتی ہے - اس تیلی کی حرارت سے جس جگہ آگ جلانا مقصود ہے وہاں ان کیمیائی تعاملات کا آغاز کیا جاتا ہے - ایک دفعہ آگ بھڑک اٹھے یعنی یہ کیمیائی تعاملات شروع ہوجائیں تو اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے آس پاس کے علاقے میں بھی یہی تعاملات شروع ہوجاتے ہیں اور یوں آگ جلتی رہتی ہے

آگ کی توانائی فوٹانز کی شکل میں خارج ہوتی ہے - ان میں سے کچھ فوٹانز انفرا ریڈ فریکونسی کے حامل ہوتے ہیں جنہیں ہم حرارت کے طور پر محسوس کرتے ہیں اور کچھ visible spectrum میں ہوتے ہیں جنہیں ہم روشنی کی شکل میں محسوس کرتے ہیں - یعنی ہم حرارت اور روشنی کو دو الگ مظاہر کی طرح محسوس کرتے ہیں لیکن دراصل یہ ایک ہی مظہر یعنی فوٹانز کا اخراج ہے - صرف ان کی توانائی مختلف ہوتی ہے
تحریر قدیر قریشی

سوال ۔۔14  غیر ضروری بالوں کس طرح ختم کیا جاۓ؟
بالوں کو مکمل طور پر ختم کرنا کا واحد طریقہ میرا علم میں الیکٹرولوجی ہے ، جس میں معمولی سے کرنٹ کے درجہ حرارت یا سوڈیم ہائیڈروآکسائڈ بنا کر یا دونوں کو ملا کر بالوں کی جڑوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے ، دوسرے طریقے کو دائمی نہیں ہیں ان میں لیزر کا استعمال ، آئ پی ایل (ایک خاص قسم کی لائٹ نہ کہ کرکٹ ) اور کیمیائی طریقے ہیں ، کیمیائی طریقوں میں ایک کریم کے ذریے جلد کے خلیوں کے باہر موجود پروٹینز کی تہ (کراٹن ) کو توڑا جاتا ہے تاکہ بال خود نکل آیئں ، آداب
تحریر پہلی باریش

سوال ۔15 لاہور سے ایک ریلوے ٹریک بچھایا جاۓ جوکہ پوری دنیا کا چکر لگا کر واپس لاہور سے آملے اور اس ٹریک پر ایک ٹرین چلائی جائے جس میں کچھ مسافر ہوں
فرض کریں وہ ٹریک روشنی کی رفتار کے قریب زمین کے گرد حرکت کر رہا ہے اور اس پر موجود ٹرین بھی روشنی کے قریب رفتار سے حرکت کر رہی ہے
کیا ٹریک اور ٹرین دونوں کی مجموعی رفتار روشنی کی رفتار سے تجاوز نہیں کر جاۓ گی? ٹرین میں موجود افراد روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر نہیں کررہے ہوں گے?

جواب آپ کے سوال کے جواب کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ روشنی کی رفتار کائنات کا ایک ابدی کانسٹینٹ ہے جسے C سے ظاہر کیا جاتا ہے - روشنی ہر ریفرنس فریم میں اسی رفتار سے سفر کرتی ہے - کسی بھی ریفرنس فریم میں کسی مادی شے کی رفتار اس رفتار سے زیادہ نہیں ہوسکتی - 'ٹرین کی رفتار کیا ہے' ایک مہمل اور نامکمل سوال ہے - درست سوال یہ ہے کہ زمین پر موجود کسی آبزرور کے لیے اس ٹرین کی رفتار کیا ہے - زمین پر موجود کسی آبزرور کے لیے اس ٹرین کی رفتار کبھی روشنی کی رفتار سے زیادہ نہیں ہوپائے گی کیونکہ یہ ذہن میں رکھیے کہ رفتار کے اضافے کے ساتھ ساتھ وقت اور سپیس دونوں اس آبزرور کے لیے تبدیل ہوتے جائیں گے - چنانچہ اگرچہ اس ٹریک کی رفتار زمین پر موجود آبزرور کے لیے روشنی کی رفتار کے قریب ہے، اس ٹرین کی رفتار بھی زمین پر موجود آبزرور کو ٹریک کی رفتار سے زیادہ تیز لیکن روشنی کی رفتار سے کم نظر آئے گی - ٹرین کی رفتار کو اس فارمولے سے کیلکولیٹ کیا جاسکتا ہے

u=(v1+v2)/(1+(v1v2/c^2))

اس فارمولے میں V1 اور V2 ٹریک اور ٹریک کے اوپر ٹرین کی رفتار ہے جبکہ U وہ رفتار ہے جو زمین پر آبزرور نوٹ کرے گا - آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب تک V1  اور V2 دونوں C سے کم ہیں تب تک U بھی C  سے کم ہی ہوگا
تحریر قدیر قریشی

Comments

Popular posts from this blog

شعور اور لاشعور

نسوار کیا ہے