آپ اپنے سوچوں کے مالک ہیں غلام نہیں
آپ اپنی سوچوں کے مالک ہیں غُلام نہیں!
سوچنا ایک فِطری عمل ہے۔ لیکن بُہت سے لوگ اپنی سوچوں کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔ جس بات کی سوچ اُن کے دماغ میں پیدا ہوتی ہے وہ وہی کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ رویہ زیادہ تر ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے۔ کیونکہ ہر وقت مختلف موضوعات پہ سوچتے رہنا دماغی صحت کے لئے ہرگز صحت مند نہیں ہوتا۔
ڈپریشن تب شروع ہوتی ہے جب دماغ زیادہ سوچنے کے عمل کی طرف آجاتا ہے۔ اور یہ عمل تب شروع ہوتا ہے جب لوگ خود کو اپنی سوچوں کا غلام بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ ہماری سوچیں ہماری مالک نہیں بلکہ ہماری غلام ہیں۔ ہمیں یہ سیکھنا بے حد ضروری ہو گا کہ ہمیں کیسے سوچنا ہے۔
گو یہ بہت پیچیدہ موضوع ہے اس پر بات کرنا میرے جیسے طالب علموں کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ بتاتا چلوں کہ ہمیں اس بات پہ کنٹرول کرنا ہوگا کہ ہمیں کب کیا اور کیسے سوچنا ہے۔ اور اس کام کے لئے ہمیں ریاضت کرنا ہوگی۔ مذہبی کُتب جیسا کہ قُرآن، وید یا دوسری کُتب کو لے لیں۔ ان سب میں بھی اس بات پہ بے حد زور دیا گیا ہے کہ بے لگام ہو کر مت سوچو۔ حتی کہ بعض جگہوں پہ تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ بے جا سوچنا شیطانی عمل ہے۔ اور یہ شیطانی عمل اس لئے ہے کیونکہ زیادہ سوچنا /اوورتھنکنگ ڈپریشن کی بنیادی وجہ ہے۔
یوگی ، دُنیا میں اس وقت میرے خیال میں وہ واحد لوگ ہی ہیں جو اپنی دماغی صحت پہ اتنی توجہ دیتے ہیں۔ ایک واقعہ ہے کہ دو یوگی ایک جگہ بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ مُجھے ندی پار کروا دو۔ ایک یوگی نے اُس عورت کو کاندھوں پہ بٹھا کر اُسے ندی پار کرا دی۔ تبھی دوسرا یوگی اُسے تنبیہ کرتے ہوئے بولا کہ تُم نے عورت کوچھوا اور یہ ایک پاپ ہے۔ تو دوسرا بولا کہ میں نے تو خیر چھوا سو چھوا لیکن تُم نے عورت کو اپنے سر پہ چڑھا کہ مُجھ سے بھی بڑا پاپ کردیا ہے۔
فرنٹل کارٹیکس یا پھر دماغ کا سامنی حصہ وہ حصہ ہے جو ہماری سوچوں کو ترتیب دیتا ہے۔ یہ حصہ فیصلہ سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ یہ ترتیب کیساتھ چیزوں کو سوچتا ہے۔ اور یوگی فقط اس حصے پہ کنٹرول پانے کے لئے یا پھر نروان کے حصول کے لئے اپنی زندگی کا ایک خاص حصہ خرچ کر دیتے ہیں۔
ہمارا دماغ چیزوں کو جان کر سیکھتا ہے۔ یہ چیزوں کو رٹ کر سیکھنا یاداشت کہلاتا ہے جبکہ جان کر سیکھنا ذہانت کہلائے گا۔ اور یہی سوچوں پہ کنٹرول ہے جس میں بے ہنگم خیالات کی بجائے ایک خاص موضوع پہ مکمل بوجھ حاصل کرنا ہوتی ہے۔ ہمیں اکثر اس بات کا خوف رہتا ہے کہ ہم پیسہ کھو دیں گے، ہمارا گھر بار ہم سے کھو جائے گا، ہماری اولاد ہم سے دور چلی جائے گی۔ یہ دماغ کا جذباتی حصہ ہے جو کہ نوے فیصد سے زائد لوگ استعمال کرتے ہیں اور یہی مسائل کی جڑ ہے۔ ہمیں اس کھونے کے خوف سے نکل کر سوچنا شروع کرنا ہوگا ۔
ایک آیت ہے جسکا ترجمہ کُچھ یوں ہے کہ اللہ کے قریبی لوگ وہ ہیں جن کو نا ماضی کا پچھتاوا ہوتا ہے اور نا مُستقل کا اندیشہ۔ یہ آیت بھی دراصل ہمیں اپنے جذباتی دماغ پہ قابو پانے پہ زور دیتی ہے۔ کیونکہ یہ ماضی کا خوف اور مُسقبل کا اندیشہ ایک جبلی خاصیت ہے اس لئے اس پر قابو پانا بے حد ضروری ہے۔ اور یہی قابو ہمیں اپنی سوچوں کا غلام نہیں بلکہ مالک بناتا ہے۔
اس لئے کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ ہم اپنی سوچوں کو کنٹرول کریں ناکہ ہماری سوچیں ہمیں کنٹرول کریں۔ مالک بنیں غُلام نہیں۔
تحریر ضیغم قدیر
Comments
Post a Comment