Posts

Showing posts from June, 2020

دنیا ‏کے ‏امیر ‏ترین ‏شخص ‏کی ‏دکھ ‏بھری ‏کہانی

اوناسس دنیاکی سب سے بڑی جہاز رانی کمپنی کا مالک تھا، زیتون کا کاروبار کرتاتھا اسے دنیا کے امیرترین شخص کا اعزاز حاصل تھا اسکوایک عجیب بیماری لگی تھی جس وجھ سے اسکے اعصاب جواب دے گۓ تھے یہان تک کہ آنکھوں کی پلکیں بھی خود نہیں اٹھاسکتے تھے ڈاکٹروں نے انکھیں کھولنے کے لیے پلکوں پر سولیشن لگاکر اوپر چپکادیتے تھے رات کو جب آرم کرتےتوسولیشن اتاردیتے توپلکیں خودبخود نیچے گرجاتی صبح پھرسولیشن لگادیتے، ایک دن اس سے سب سے بڑی خواھش پوچھی گئی تو کہا کہ صرف ایک بار اپنی پلکیں خود اٹھاسکوں چاھے اس پرمیری ساری دولت ھی کیوں نہ خرچ آجاۓ، اللہ اکبر . صرف ایک بارپلکیں خود اٹھانے کی قیمت دنیاکاامیرترین شخص اپنی ساری دولت دیتاہے؟ ھم مفت میں ان گنت بار پلکیں خوداٹھاسکتے ھیں دل ایک خودکارمشین کی طرح بغیرکسی چارجز کے دن میں ایک لاکھ 3ھزار680 مرتبہ دھڑکتاہے آنکھیں 1کروڑ10لاکھ رنگ دیکھ سکتی ھیں زبان کان ناک ھونٹ دانت ھاتھ پاؤں جگرمعدہ دماغ پھیپھڑ پورے جسم کے اعضاء آٹومیٹک کام کرتے ھیں ایسے کریم رب کی ھر نعمت کاشکرکرنا اور اسکو راضی کرنے کی پوری کوشش کرنا اوراسکا ھروقت شکرکرناچاہیے... اللہ مجھے اور آپکو عمل کرن...

چند نفسیاتی مسائل کے حوالے سے چند ٹ ِٹیپس ۔۔۔

چند نفسیاتی مسائل کے حوالے سے چند #ٹِپس ۔۔۔ 1....اگر آپ ڈپریشن کا شکار ھیں اور خود کو تنہا محسوس کر رھے ھیں  تو کبھی تنہا کمرے میں لائیٹ آف کرکے نہ بیٹھیں ۔ اندھیرا آپ کے ذھن کو مزید منفی سوچوں کی طرف لے جاتا ھے ۔   ۔ 2...اگر آپ اداس ھیں  تو چھوٹے بچوں کے پاس جاکر بیٹھ جائیں ۔ ان کی شرارتیں دیکھیں تو یقیناً آپ کو اپنا بچپن یاد آجائے گا اور آپ کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل جائے گی ۔ 3۔۔۔ اگر آپ کو لگتا ھے کہ زندگی میں ناکامیاں صرف آپ کا ھی مقدر ھیں تو اپنے سے کمتر معاشرتی اور معاشی حالت کے حامل لوگوں کی زندگی کا مشاھدہ کیجئے ۔۔  مثلاً آپ کا خانساماں ۔۔ ڈرائیور ۔۔ یا آپ  کے گھریلو کام کرنے والی خاتون ۔۔  جس کو آپ ماسی کہتے ھیں ۔  4...پریشانی اور ڈپریشن میں مذھب کی چھتری تلے ضرور پناہ لیجئے ۔  خدا کے حضور حاضری سے دل مطمئن ھوتا ھے ۔ جبکہ مذھب سے دوری سے شیطان دل میں وسوسے پیدا  کر دیتا ھے ۔ 5.. اگر آپ کا لائف پارٹنر آپ کو چھوڑ گیا ھے یا محبت میں آپ کو دھوکا ھوا ھے تو یقین کر لیجئے کہ خدا نے آپ کے لئے کچھ زیادہ بہتر سوچا ھے  6.... آپ کو لگتا ...

دنیا ‏کے ‏امیر ‏ترین ‏شخص ‏کی ‏دکھ ‏بھری ‏کہانی

اوناسس دنیاکی سب سے بڑی جہاز رانی کمپنی کا مالک تھا، زیتون کا کاروبار کرتاتھا اسے دنیا کے امیرترین شخص کا اعزاز حاصل تھا اسکوایک عجیب بیماری لگی تھی جس وجھ سے اسکے اعصاب جواب دے گۓ تھے یہان تک کہ آنکھوں کی پلکیں بھی خود نہیں اٹھاسکتے تھے ڈاکٹروں نے انکھیں کھولنے کے لیے پلکوں پر سولیشن لگاکر اوپر چپکادیتے تھے رات کو جب آرم کرتےتوسولیشن اتاردیتے توپلکیں خودبخود نیچے گرجاتی صبح پھرسولیشن لگادیتے، ایک دن اس سے سب سے بڑی خواھش پوچھی گئی تو کہا کہ صرف ایک بار اپنی پلکیں خود اٹھاسکوں چاھے اس پرمیری ساری دولت ھی کیوں نہ خرچ آجاۓ، اللہ اکبر . صرف ایک بارپلکیں خود اٹھانے کی قیمت دنیاکاامیرترین شخص اپنی ساری دولت دیتاہے؟ ھم مفت میں ان گنت بار پلکیں خوداٹھاسکتے ھیں دل ایک خودکارمشین کی طرح بغیرکسی چارجز کے دن میں ایک لاکھ 3ھزار680 مرتبہ دھڑکتاہے آنکھیں 1کروڑ10لاکھ رنگ دیکھ سکتی ھیں زبان کان ناک ھونٹ دانت ھاتھ پاؤں جگرمعدہ دماغ پھیپھڑ پورے جسم کے اعضاء آٹومیٹک کام کرتے ھیں ایسے کریم رب کی ھر نعمت کاشکرکرنا اور اسکو راضی کرنے کی پوری کوشش کرنا اوراسکا ھروقت شکرکرناچاہیے... اللہ مجھے اور آپکو عمل کرن...

دکھ ‏کیا ‏ہے؟ ‏

دکھ کیا ہوتا ہے ـــــ کوئی عورت ساری رات اپنے شوهر سے مار کھا کے اب کسی کے گھر میں صفائی کر رهی هو گی اور اُس گھر کا مالک اُس کو گھور رها هو گا دکھ کسی مدرسے میں سالوں سے دور کوئی بچہ کسی کونے میں بیٹھا اپنی ماں کو یاد کر رها ھو گا اور هچکیاں لیتے رو رها هو گا دکھ کسی سکول میں کوئی بچی آج بھی سکول فیس نہ هونے سبب کلاس سے باهر کھڑی هو گی اور اُس کے آنسو اُس کی روح میں جذب هو رهے هوں گے دکھ کہیں کوئی اپنے صحن میں اپنے پیارے کا جنازہ لئے بیٹھا ھو گا اور اُس سے لپٹ کے خود کو یقین دلا رها هو گا کہ یہ خواب هے دکھ کہیں دور کسی صحرا میں کوئی ریت پہ زبان پھیر کے موت سے لڑ رها ھو گا اور سوچ رها هو گا کہ کہیں کوئی اُس کے حال کو جانتا تک نہ ھو گا دکھ کہیں جیل میں کوئی پردیسی کسی ناکردہ جرم میں سسکتے هوئے اپنوں کے چہروں کو ڈھونڈ رها هو گا اور سوچ رها هو گا کہ اُس کی فاتحہ بھی نہ هو گی دکھ کہیں دور کسی ایمرجنسی میں اپنے باپ کے سرهانے کھڑا بچہ اپنی شفقت کا سایہ سر سے اٹھتے دیکھ رها هو گا دکھ اس وقت بھی کسی گاوُں کی ڈسپنسری میں کوئی ماں اپنے لخت جگر کا سر گود میں رکھے اُس کی زندگی کی سانسیں گن رهی هو ...

نیلسن ‏مینڈلہ ‏ایک ‏فکر ‏انگیز ‏واقعہ

ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻣﯿﻨﮉﯾﻠﮧ ﺩﻭ ﺩﮨﺎﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻭﻗﺖ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﻵﺧﺮ ﺳﺎﻭﺗﮫ ﺍﻓﺮﯾﻘﮧ ﮐﮯ ﺻﺪﺭ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﯿﮑﻮﺭﭨﯽ ﭨﯿﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﮩﺮ ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﺍُﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻣﯿﻨﮉﯾﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﮑﻮﺭﭨﯽ ﺍﻓﺴﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍُﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﺎﺋﮯ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺁﮔﯿﺎ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍُﺳﮑﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻧﭗ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻭﮦ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻣﯿﻨﮉﯾﻠﮧ ﮐﺎ ﺳﯿﮑﻮﺭﭨﯽ ﺍﻓﺴﺮ ﺑﻮﻻ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮑﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎﻧﭗ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺣﺎﻟﺖ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻣﯿﻨﮉﯾﻠﮧ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺭﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮨﯽ ﺳﻠﻮﮎ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ ﺟﻮ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﺎﺩﯼ ﺗﮭﺎ۔ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻣﯿﻨﮉﯾﻠﮧ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﮔﺎﺭﮈ ﺗﮭﺎ، ﯾﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺷﺪﯾﺪ ﺗﺸﺪﺩ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ، ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺁﺝ ﺍﺳﮑﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﺎﻧﭗ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﺭ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻡ ﻟﻮﻧﮕﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﺘﻘﺎﻡ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺟﺰﺑﮧ ﮨﮯ ﺟ...

ایک ہنستا مسکراتا شخص خودکشی کیوں کرتا ہے؟

ایک ہنستا مسکراتا شخص خودکشی کیوں کرتا ہے؟ باہر سے پرسکون نظر آنے والے وجود کے اندر کتنی جنگیں چل رہی ہوتی ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔  یہ جنگ چھوٹی سی بات پہ بھی شروع ہو سکتی ہے۔ جیسے کوئی کہے تمہارے منہ پہ کتنا برا دانہ نکل آیا ہے۔ اس پر ہماری نفسیاتی حالت ایسی بن جاتی ہے کہ ہم اپنے منہ سے نفرت تک کرنے پہ آ جاتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ دوسروں کو موٹیویشن دینے کی تلقین کرتے ہیں۔ کیا آپ کو پتا ہے ایک ماہر نفسیات جو ہر نفسیاتی مرض کا علاج کرتا ہے وہ خود نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ اور خودکشی کی نوبت تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی حال بھارتی اداکار سوشانت کے ساتھ ہوا، چھچھورے فلم میں یہ بتانے والا کہ خودکشی نا کرو آج خود زندگی سے ہار گیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی نوبت کب آتی ہے؟ ہماری نوجوان نسل ڈپریشن کا شکار کیوں ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ سا ہے۔  آج ہمارا پوری دنیا کے ساتھ تعلق ایک کلک کی دوری پہ ہے۔ ایسے میں ہمیں ہر جگہ ہنستے مسکراتے لوگ با آسانی مل جاتے ہیں۔ کسی کے پاس بنگلہ ہے تو کسی کے پاس خوبصورت عورت، کسی کا بوائے فرینڈ پیارا ہے تو کسی کا موبائیل۔ یہ سب ہمیں ایک احساس کمتری میں...

فوبیا شدید اور غیر معقول خوف کا نام ہے۔

فوبیا شدید اور غیر معقول خوف کا نام ہے۔ ہر انسان کو کوئی نہ کوئی ڈر ضرور ہوتا ہے۔  جیسے کسی جانور کا ڈر،  لوگوں سے بات کرتے کا ڈر، اونچائی کا خوف یا اندھیرے سے خوف۔  کسی خوف میں مبتلا انسان کو بعض اوقات  کافی پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کسی فوبیا کا شکار لوگ  کسی خاص ماحول،  وقت یا چیز سے خوفردہ ہو جاتے ہیں۔  فوبیا میں مبتلا لوگ یہ بات بھی جانتے ہیں  کہ ان کا خوف ۔بے بنیاد ہے لیکن پھر بھی وہ  اس کیفیت سے نکل نہیں سکتے            کلسٹرو فوبیا (Claustrophobia) اس فوبیا میں مریض کو چھوٹی اور تنگ جگہ میں  پھنس جانے کا خوف میں ہوتا ہے۔  مریض کوایسا لگتا ہے وہ اس جگہ سےوہ باہرنہیں  نکل سکے گا۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دنیا کی  5 سے 7 فیصد آبادی اس بیماری کا شکار ہے۔               نیکٹو فوبیا (Nyctophobia) اندھیرے سے تو سب کو ہی خوف محسوس ہوتا ہے۔  لیکن کچھ لوگوں کو اندھیرے میں عجیب و غریب  بھیانک شکلیں نظر آتی ہیں۔  ایسے ہی اندھیرے سے خوف کو ...

ایک ہنستا مسکراتا شخص خودکشی کیوں کرتا ہے؟

ایک ہنستا مسکراتا شخص خودکشی کیوں کرتا ہے؟ باہر سے پرسکون نظر آنے والے وجود کے اندر کتنی جنگیں چل رہی ہوتی ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔  یہ جنگ چھوٹی سی بات پہ بھی شروع ہو سکتی ہے۔ جیسے کوئی کہے تمہارے منہ پہ کتنا برا دانہ نکل آیا ہے۔ اس پر ہماری نفسیاتی حالت ایسی بن جاتی ہے کہ ہم اپنے منہ سے نفرت تک کرنے پہ آ جاتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ دوسروں کو موٹیویشن دینے کی تلقین کرتے ہیں۔ کیا آپ کو پتا ہے ایک ماہر نفسیات جو ہر نفسیاتی مرض کا علاج کرتا ہے وہ خود نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ اور خودکشی کی نوبت تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی حال بھارتی اداکار سوشانت کے ساتھ ہوا، چھچھورے فلم میں یہ بتانے والا کہ خودکشی نا کرو آج خود زندگی سے ہار گیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی نوبت کب آتی ہے؟ ہماری نوجوان نسل ڈپریشن کا شکار کیوں ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ سا ہے۔  آج ہمارا پوری دنیا کے ساتھ تعلق ایک کلک کی دوری پہ ہے۔ ایسے میں ہمیں ہر جگہ ہنستے مسکراتے لوگ با آسانی مل جاتے ہیں۔ کسی کے پاس بنگلہ ہے تو کسی کے پاس خوبصورت عورت، کسی کا بوائے فرینڈ پیارا ہے تو کسی کا موبائیل۔ یہ سب ہمیں ایک احساس کمتری میں...

ڈبل ‏شاہ

وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوا‘ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر بی ایس سی اور بی ایڈ کیا اور وزیر آباد کے قریب نظام آباد کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں سائنس کا استاد بھرتی ہو گیا‘ غربت زیادہ تھی اور خواب اونچے‘ وہ نوکری سے اکتا گیا‘ چھٹی لی اور 2004ء میں دوبئی چلا گیا‘ وہ چھ ماہ دوبئی رہا‘ وہ چھ ماہ بعد وزیر آباد واپس آ گیا‘ وزیر آباد میں اس نے ایک عجیب کام شروع کیا‘ اس نے ہمسایوں سے رقم مانگی اور یہ رقم پندرہ دن میں دوگنی کر کے واپس کردی‘ ایک ہمسایہ اس کا پہلا گاہک بنا‘ یہ ہمسایہ جاوید ماربل کے نام سے ماربل کا کاروبار کرتا تھا۔ ہمسائے نے رقم دی اور ٹھیک پندرہ دن بعد دوگنی رقم واپس لے لی‘ محلے کے دو لوگ اگلے گاہک بنے‘ یہ بھی پندرہ دنوں میں دوگنی رقم کے مالک ہو گئے‘ یہ دو گاہک اس کے پاس پندرہ گاہک لے آئے اور یہ پندرہ گاہک مہینے میں ڈیڑھ سو گاہک ہو گئے‘ یوں دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی لائین لگ گئی‘ لوگ زیورات بیچتے‘ گاڑی‘ دکان‘ مکان اور زمین فروخت کرتے اور رقم اس کے حوالے کر دیتے‘ وہ یہ رقم دوگنی کر کے واپس کر دیتا‘ یہ کاروبار شروع میں صرف نظام آباد تک محدود تھا لیکن پھر یہ وزیر آباد‘ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ ت...

شعور ‏کو ‏کیسے ‏بڑھایا ‏جاۓ؟ ‏

شعور کو کیسے بڑھایا جائے؟ قاسم علی شاہ شعور کوئی چھونے والی چیز نہیں۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا ہے۔ وقت آتا ہے تو یہ ایکٹیو ( متحرک )ہو جاتا ہے۔ یہ اظہار شروع کردیتا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے تو ایک وقت کے بعد مردانگی، بلوغت کی شکل میں ظاہر ہونے لگتی ہے۔ آواز بدل جاتی ہے، ہارمونز بدل جاتے ہیں، چہرے پربال آنے لگتے ہیں۔ اسی طرح شعور ایک خاص وقت کے بعد پروان چڑھتا ہے تو انسان کے اندر سے جیسے بلوغت پھوٹتی ہے، ویسے ہی شعور پھوٹ پڑتا ہے۔ اچھی قسمت یہ ہوتی ہے کہ شعور موروثی طور پر اچھا مل جائے۔ بعض اوقات انسان کے اوپر ایسی ذمے داریاں پڑ جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کا شعور بلند ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات وقت سے پہلے انسان کی مجلس اتنی سنجیدہ ہوتی ہے کہ شعور وقت سے پہلے ہی بلند تر ہوجاتا ہے۔ انسان کے شعور کی پہچان چھوٹے چھوٹے کاموں سے ہوتی ہے۔ جو شخص چھوٹے چھوٹے کاموں میں احتیاط نہیں کرتا، وہ بڑا انسان نہیں ہے۔ ایک بزرگ نے آم کھائے اور کھانے کے بعد سارے چھلکے لپیٹ کر دوسری جگہ جاکر پھینک دیئے۔ کسی نے پوچھا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا کہ اس گلی کے غریب رہائشی جب ان چھلکوں کو دیکھیں گے تو اُن...