محبت اور کام

محبت اور کام

جب ایک کمپیوٹر ٹوٹ جاتا ہے تو یہ اپنے آپ کی مرمت نہیں کر سکتا۔ اس کو کھول کر کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کمپیوٹر کا استعارہ ہماری سوچ پر اتنا گہرا نقش ہے کہ کچھ لوگ انسانوں کو کمپیوٹر کی طرح سمجھتے ہیں، جن کی مرمت کی جا سکتی ہے یا جن کو دوبارہ پروگرام کیا جا سکتا ہے لیکن انسان کمپیوٹر نہیں ہیں۔ یہ اپنی مرمت خود کرتے ہیں۔ ایک بہتر استعارہ پودے کا ہو گا۔ اگر پودا مکمل طور پر مر نہ گیا ہو نہ ہو تو یہ واپس ایک اچھی اور زبردست زندگی کی طرف لوٹ سکتا ہے اگر حالات موافق ہوں۔ اس کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا، لیکن مناسب حالات دئے جا سکتے ہیں۔۔ پانی، دھوپ اور مٹی ۔۔۔ اور پھر انتظار کیا جا سکتا ہے۔ باقی کام پودے کا ہے۔

انسانوں کے لئے یہ موافق حالات کیا ہیں؟ ان کا سب سے بڑا جزو محبت ہے۔ کوئی مرد، عورت یا بچہ تنہا جزیرہ نہیں ہے۔ ہم الٹرا سوشل ہیں۔ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کا دوسرا جزو ٹھیک مقاصد ہیں اور ایک بہاوٗ (Flow) کی کیفیت ہے۔ وہ کام جس میں ڈوب کر دنیا کی خبر نہ رہے۔ یہ مقاصد اور یہ فلو کسی بھی طریقے سے پیدا ہو سکتے ہیں لیکن جدید دنیا میں فلو کی کیفیت عام طور پر اپنے کام سے پیدا ہوتی ہے۔ کام کا مطلب صرف اپنا پیشہ نہیں۔ ایک طالب علم اور ایک فُل ٹائم والدہ سمیت کسی بھی شخص کے لئے کوئی بھی ایسا کام ہے جو اس کی زندگی کا بڑا حصہ ہو۔

انسانوں کے لئے محبت اور کام ویسے ہیں جیسا پودوں کے لئے دھوپ اور پانی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہارورڈ کے ماہرِ نفسیات رابرٹ وہائٹ نے سب سے پہلے 1959 میں یہ مشاہدہ کیا تھا کہ اُس وقت کی رویوں کی تھیوری ایک بہت بڑے نکتے کی وضاحت نہیں کرتی تھیں۔ لوگ صرف کسی مقصد کے لئے کام نہیں کرتے بلکہ کام کرنا بھی ان کا مقصد ہوتا ہے اور یہ بچپن سے شروع ہو جاتا ہے۔ بہت چھوٹے بچے کے لئے اپنے بازو سے گھنٹی بجا دینا یا پہیہ گھما دینا بھی ایک مقصد ہے۔ بڑے بچے بھی پرابلم حل کرنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ ایسی کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ان کو چیلنج کریں۔ کام مجبوری نہیں ہے۔ کام زندگی ہے۔

جب لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں یا بے روزگار ہو جاتے ہیں یا لاٹری جیت لیتے ہیں یا کوئی بھی اور واقعہ جس کی وجہ سے کام رک جائے اور کوئی متبادل مصروفیت نہ ملے تو ان پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ (مسئلہ فکرِ معاش کا نہیں)۔ وہائٹ اس کو ایک آرزو کا نام دیتے ہیں۔ دنیا میں اپنا اثر اور اپنا حصہ ڈالنے کی آرزو۔ ان کے نزدیک یہ پانی اور خوراک کی طرح ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ اپنے سیٹ کئے گئے ٹارگٹ کی طرف بڑھنا ہمیں خوشی دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ اپنے کام کو تین طرح سے دیکھتے ہیں۔ ایک جاب، ایک کیرئیر یا ایک مقصدِ زندگی۔ جب اس کو ایک جاب کی طرح دیکھا جاتا ہے تو اس کو پیسہ کمانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ گھڑی دیکھی جاتی ہے کہ جانے کا وقت ہو گیا یا نہیں، ویک اینڈ کا انتظار رہنتا ہے تا کہ پسند مشاغل میں حصہ لیا جا سکے۔ اگر اس کو کیرئیر کی طرح دیکھا جائے تو پھر بڑے ٹارگٹ سیٹ کئے جا سکتے ہیں۔ ترقی اور عزت حاصل کرنے کی راہ دیکھنا۔ اس کے لئے کوشش کرنا۔ ان کے حصول کی لگن توانائی دیتی ہے۔ کئی بار کام کو گھر بھی لے جایا جاتا ہے۔ لیکن کئی بار پھر خیال بھی آتا ہے کہ کیوں؟ اگر اس کو مقصدِ زندگی کے طور پر دیکھا جائے جس میں اچھا کام کر دینا ہی مقصد ہو تو پھر ضمنی چیزوں کی اہمیت نہیں رہیتی۔ ایک دن میں ہی فلو کے مواقع آ سکتے ہیں۔ ہر وقت گھر جانے کا انتظار نہیں رہتا۔ اگر لاٹری بھی نکل آئے تو بھی یہ کام جاری رکھیں گے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں آئے کہ کام کا مقصدِ زندگی تو صرف ڈاکٹر یا استاد وغیرہ جیسے پیشوں تک ہی محدود ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ ہر قسم کے کام میں ہو سکتا ہے۔ نیویارک یونیورسٹی کی سائیکولوجسٹ ایمی ورژینسکی نے ایک ہسپتال میں صفائی کے عملے پر اس کی سٹڈی کی۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے، جن کے لئے یہ ایک ڈیوٹی سے بڑھ کر تھا۔ یہ اپنے آپ کو شفایاب کرنے والی ٹیم کا حصہ سمجھتے تھے۔ صرف آرڈر ملنے کے انتظار میں نہیں ہوتے تھے۔ اپنی طرف سے بیمار کو آرام پہنچانا یا ڈاکٹر اور نرس کی ضرورت کا پہلے سے اندازہ لگا لینا ۔۔۔ یہ ان کے لئے مقصدِ زندگی بن گیا تھا۔ یہ دوسروں سے زیادہ کام بھی کر لیتے تھے اور یہ ان کے لئے اطمینان کا ذریعہ بن گیا تھا۔

مثبت سائیکلوجی پر تحقیق بتاتی ہے کہ تقریباً ہر پیشے میں ہم فلو کے لمحات ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی جگہ پر پھنس گئے ہیں تو ایک قدم پیچھے لیں اور دیکھیں کہ کیسے اپنے کام کو ری فریم کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے کچھ اضافی کام بھی کرنا پڑے۔ نئے ذہن کے ساتھ اپنے آپ کو کسی بڑی تصویر کے ایک حصے کے طور پر دیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ 

زندگی میں خوشی اور اطمینان صرف اندر سے نہیں آتا۔ اور یہ صرف باہر سے نہیں آتا۔ یہ ان کے بیچ سے نکلتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت اور کام کے ساتھ ایک اگلا بڑا تعلق یا موافق حالات کا تیسرا جزو اپنی ذات سے بڑی کسی چیز سے ہے۔ (اس کی تفصیل کے لئے نیچے لنک میں دی گئی کتاب سے)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی کا مطلب کیا ہے؟ اس کا کوئی ایک تشفی بخش جواب موجود نہیں ہے لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اطمینان اور خوشی کوئی ایسی شے نہیں جو کہیں سے مل جائے، کہیں سے حاصل کر لی جائے یا کوئی منزل ہے جس تک پہنچا جا سکے۔ اس کے لئے حالات ٹھیک کئے جا سکتے ہیں اور انتظار کیا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں آپ کے اندر ہی ہیں جبکہ کچھ باہر۔ جس طرح پودوں کو سورج پانی اور اچھی مٹی کی ضرورت ہے، ویسے لوگوں کو محبت، کام اور اپنے سے بڑی چیز سے تعلق کی ہے۔ اپنے اور دوسروں کی درمیان اچھے تعلق قائم کرنے کی کوشش، اپنے اور اپنے کام کے درمیان مثبت رشتہ بنانے کی سعی اور اپنے اور اپنی ذات سے بڑی چیز کے درمیان تعلق کی جستجو، یہ زندگی میں وہ چیزیں ہیں جو کرنے کے قابل ہیں۔ اگر ان کو ٹھیک کر لیں تو پھر انتظار کریں، زندگی کا مقصد اور اس میں سے معنی رفتہ رفتہ خود ہی ابھر آئیں گے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا پہلا حصہ

https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/1547328708768993/

یہ اقتباس اس کتاب سے ہے۔ اس کو مکمل پڑھنے کے لئے

https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/1454417981393400/

Comments

Popular posts from this blog

شعور اور لاشعور

نسوار کیا ہے