موت کا راز
موت کو اس لیے خوفناک رکھاگیاہے کہ اگر اِس کی دلکشی حیاتِ ارضی پر عیاں ہوتی تو حیات کا بقا ناممکن تھا۔ ہرکوئی خوشی سے مرنا چاہتا اور یوں سب ہی مرجاتے۔ میں اکثر کہا کرتاہوں کہ خودکشی کو بھی اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ اگر بفرضِ محال اِس کے برعکس کہہ دیا جاتا کہ ’’خودکشی ثواب ہے یا اس کا اجر ہے یا یہی کہ یہ بہادری ہے اور اچھی چیز ہے‘‘ تو کون جینا چاہتا؟ موت کا نام ہی برا ہے۔ جیسے کالی بلا۔ جیتا جاگتا انسان سیکنڈوں میں خاک ہوجاتا ہے۔ اس کا جسم جو عناصر کا ظہور ترتیب تھا گلنے سڑنے لگتاہے۔ اس سے بدبُو اُٹھنے لگتی ہے اور وہ دنوں میں ڈی کمپوز ہوکر مٹی میں مل جاتاہے۔ جانور ہو یا انسان یہ سب کے ساتھ ہوتاہے اور یوں سب ہی اِس موذی قسم کے فنا سے گھبرائے گھبرائے سے رہتے ہیں۔ مذہب نے البتہ یہ دعویٰ کررکھاہے کہ جسم کی موت واقع ہوجانے سے دراصل موت واقع نہیں ہوتی۔ اس دعویٰ کے حق میں مذہب نے کبھی کوئی حسّی ثبوت پیش نہیں کیا۔ مذہب کے اس دعویٰ کے حق میں سائنس کو بھی کبھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا اس لیے سائنس یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ مرنے کے بعد بھی زندگی کا تسلسل ہوسکتاہے۔ ہرمذہب نے اپنے اپنے ...